کسی بھی ملک میں عدلیہ کو مضبوط ستون تصور کیا جاتا ہے ، عدالتی نظام سے ہی کسی بھی ملک کی ساکھ کو پرکھا جاتا ہے ، اسمبلی میں وہ عوامی نمائندے بیٹھتے ہیں جنہیں عوام سر پہ بٹھائیں لیکن عدالت کے منصف کو عوام نہیں نظام بناتا ہے۔ اسی نظام سے عدالت چلتی ہے۔ یہ نظام پہلے سے طے شدہ قواعد و ضوابط، قوانین اور آئین کے مطابق کام کرتا ہے جیسے روبوٹ۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظام تو روبوٹک ہوسکتا ہے انسان نہیں۔مثلاً ججز سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ذاتی عناد، خواہشات، پسند ناپسند سے بالکل عاری ہو کر سپاٹ چہروں، غیر جذباتی انداز اور غیر جانبدار دماغوں کے ساتھ طے شدہ قوانین و آئین کے مطابق فیصلے دیں گے۔ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ایک جج اعلیٰ کردار کا حامل ہو، زیادہ سوشل نہ ہو، نفسیاتی مسائل میں مبتلا نہ ہو، منتقم مزاج نہ ہو، کرپٹ نہ ہو، ملک اور آئین کا وفادار ہو اور صرف اللہ سے ڈرتا ہو۔ ایک اچھے جج سے وابستہ توقعات اوراس میں تلاش کی جانے والی خوبیوں کی یہ فہرست خاصی غیرفطری اور طویل ہے۔اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے ایک یہ بھی امید لگائی جاتی ہے کہ جج کوئی سیاسی وابستگی نہ رکھتا ہو، کسی پارٹی سے اس کی ہمدردی نہ ہو، اس کا جھکاؤ کسی ایک گروہ کی جانب نہ ہو۔ میری دانست میں توقعات اور خواہشات کی اس فہرست میں ایک اضافہ یہ بھی فرمالیں کہ جج بذات خود سیاست دان مزاج نہ ہو۔اعلیٰ عدلیہ میں سیاست کا دخل اور ملک کے سیاسی معاملات میں اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کا معاملہ صرف پاکستان نہیں کئی ممالک میں زیر بحث ہے۔ امریکہ میں صدر روزویلٹ سے لے کر ٹرمپ تک صدور پر عدلیہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے الزامات لگتے رہے۔ ایسے ہی برطانیہ میں بریگزٹ معاملے برطانوی سپریم کورٹ کا فیصلہ سیاسی عدسے سے دیکھا گیا۔ بھارت میں بھی اعلیٰ عدالتوں پر اکثر الزام لگتا رہتا ہے کہ انہوں نے مذہب پسندوں یا سیاسی طاقت کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔
پاکستانی عدلیہ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے یہاں بھی اکثر اسٹیبلشمنٹ عدلیہ پر اثرا نداز ہونے میں پیش پیش رہی ہے ، جنرل ضیا الحق کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانا اس کی سب سے بڑی واضح مثال ہے ، اس کے بعد لاتعداد کیسز ایسے ہیں جس پر عوام اور بے قصور سلاخوں کے پیچھے قید کاٹنے والوں کی آہیں اور چیخیں ایوان اقتدار تک ضرور پہنچی ہیں ،اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاستدان بھی مختلف ادوار میں عدلیہ پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں حال ہی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو جس میں وہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینے پر اصرار کررہے ہیں تاکہ عمران خان کے لیے راستہ صاف کیا جائے نے انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے ہیں ، امریکہ کے معتبر ادارے کی جانب سے آڈیو کو درست قرار دیا جانا اورپھر اس کے بعد پاکستانی میڈیا میں خود ساختہ فرانزک کے بعد آڈیو کو جعلی قرار دینے کا معاملہ بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے ۔میرے نزدیک تو اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کے ایسے ادارے جن کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے ان میں عدلیہ کو بھی شامل کیاجائے ، آخر کب تک بے گناہ لوگ جھوٹے گواہوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ، پاکستان میں آج بھی کچہریوں ، عدالتوں میں لوگ قطارے بنائے بیٹھے ہوتے ہیں جوکہ چند پیسوں کی بدولت جج کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہوجاتے ہیں اور کچھ کیسز میں ججز حضرات خود اعتراف کرتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ ملزم بے قصور ہے لیکن گواہوں اور شواہد کی روشنی میں مجھے سزا دینا پڑے گی آخر کیوں ؟یہ لوگوں پر سب سے بڑا ظلم ہے کہ ان کو کسی کے گناہوں کی سزا بھگتنا پڑے ۔جب ہم عدلیہ کی بات کرتے ہیں تو اس میں وکلا کا کردار بھی بہت اہم ہے ، پاکستان میں وکلا کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ، مشرف کیخلاف تحریک کی بات ہو ، لاہور میں کارڈیالوجی ہسپتال پر حملہ ہو یا آئے روز من پسند فیصلے کروانے کے لیے ججز کو کمروں میں بند کر کے پھینٹا لگانے کی بات ہو، وکلا کا کردار نظام عدل پر ایک سیاہ دھبہ کی طرح نمایاں نظر آ رہا ہے ، وکلا کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے انصاف عام آدمی سے میلوں دور چلا گیا ہے یعنی آپ کوئی بھی جرم کریں ،بھاری فیس کی عوض بڑا وکیل کریں اور آپ کو بے گناہ قرار دیا جائے گا اور اگر جج نخرے دکھائے تو چند وکلا کا بدمعاش گروپ بھری کچہری کو خالی کروا کر کمرے کو باہر سے تالا لگوا کر جج کو ایسا تشدد کا نشانہ بناتے ہیں کہ آئندہ اس کی حکم عدولی کی جرات نہیں ہوتی ہے ، سوال یہ ہے کہ عام آدمی کو انصاف کو ن دلائے گا جس کے پاس بڑے وکیلوں کی بھاری بھرکم فیسوں کے لیے پیسے نہیں ہوتے ہیں اور عام لوگ عدلیہ کے گھن چکروں سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنے معاملے کو عدالت تک پہنچنے سے پہلے ہی پیسے لے دے کررفع دفع کردیتے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ عدلیہ ، ججز ، وکلا کو راہ راست پر لایا جائے ، اب قوم مزید ناانصافیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔
٭٭٭