پچھلے دنوں مجیب لودھی(پبلشر نیوز پاکستان) پاکستان سے نجی دورے کے بعد واپس آئے تو ہمارا پہلا سوال تھا نیا پاکستان کیسا لگا، بہت شاندار لیکن اسلام آباد تک باقی جو آپ سنتے ہیں وہ ہی حال ہے۔مہنگائی نے کمر ہی نہیں بلکہ اکثریت لوگوں کی زندگی کو پامال کردیا ہے۔کوئی کام بغیر رشوت دیئے نہیں ہو رہا یہ پڑھ کر خوف آیا کہ ”اداروں میں اکثریت بڑی بڑی داڑھیوں والے ان کی کرسی کے پیچھے لکھا تھا کہ رشوت دینے والا جہنمی ہے۔لیکن ان کی نظر آپ کی جیب پر ہوگی اور بغیر رشوت کے کسی کا کام بھی نہیں کرینگے۔انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان کا پورا معاشرہ کرپٹ ترین ہوگیا ہے۔ہمارے لئے یہ نئی بات نہیں تھی جس کی تصدیق ہوگئی کہ عمران خان کچھ نہیں کر رہا ہے۔ملک کو تبدیل کرنے کے لئے تین محکموں کا ایک صف میں ہونا ضروری ہے۔اور ساتھ ہی عوام کو بھی حکومت سے مل کر کرنا ہے۔وہ تین محکمے، عدلیہ، فوجی(جنرلز) اور سیاستدان، لیکن پچھلے ساڑھے تین سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے۔
پاکستان کو شروع ہی سے غلط راستے پر چلایا جارہا ہے۔ہم نہ جنرلز کے حامی ہیں نہ ہی حکومت میں شامل اور نہ ہی حکومت کے باہر سیاست دار ملک اور عمران خان سے وفادار ہیں ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں کہ مغرب کیا کر رہا ہے۔یا ہندوستان کیا کر رہا ہے۔امریکہ یا یورپ میں کیا ہوتا ہے۔ایک ملک کسی دوسرے ملک کا آئینہ نہیں بن سکتا۔ہمارا مشن یہ ٹہرا ریٹارڈ ہونے کے بعد کہ ہم مسلم ممالک کا دورہ کریں اور تاریخ کے آئینے میں دیکھیں کہ وہ آج کہاں کھڑے ہیں۔حال ہی میں ترکی کے چھوٹے بڑے شہر، گائوں اور بازار دیکھے لوگوں کے رویئے کے ساتھ انکا ملک سے جڑے رہنے کا اندازہ کیا وہ چونکہ ایک قوم ہے جفاکش اور باضمیر اسلام کا لبادہ اوڑھے بغیر وہ اسلام کے بنائے اصولوں اور اچھی باتوں پر عمل کر رہے ہیں۔منگول سے بازلطینی اور رومن سے یونانی حکومتوں کو دیکھا ہے ان سب کے وہاں منگول کے علاوہ سب کی یادگاریں کھنڈرات کی شکل میں ہیں۔ترکش قوم زمین کے بنجر سینے سے ایک لہلہاتے پودے کی طرح ابھری ہے۔اور تناور درخت بن چکی ہے۔آپ نے ترکی کو صرف استنبول میں سمیٹا ہوگا جیسے قسطنطینہ کہا جاتا ہے۔جہاں حکومت عثمانیہ نے1299ء سے1453تک حکومت کی ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں ان کو شکست کا سامنا ہوا۔1923ء کو جنگ ہارنے کے بعد ایک معاہدہ کے تحت ترکی کو سو سال کے لئے پابند کیا گیا کہ وہ آبنائے باسفورس(مرسرا اور بحراسود کے درمیان19میل لمبی گلی)پر اپنی اجارہ داری قبضہ ختم کرے۔اور وہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں پر ٹیکس نہیں لے سکتا۔خود سے تیل کی دریافت نہیں کرسکتا۔حال ہی میں حاجیہ صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کر دیاگیا۔2023ء کے بعد ترکی کے مستقبل کے عزائم میں بہت چیزیں شامل ہیں۔اور انکی اندرونی ترقی جو اب بیرون ملکوں میں بھی عیاں ہے۔کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے۔کہ وہ مندرجہ ذیل اقدام اٹھائے گا۔اگر اردگوان کو زندگی ملی(وہ بڑی آنت کے کینسر کی زد میں ہیں)
1۔آبنائے باسفورسن پر گزرنے والے جہازوں پر معاوضہ(TOLL)۔
2۔تیل کی دریافت کے لئے کھدائی یا گہرے سمندر کے بیچ ڈریسلنگ۔
3۔ترکی سعودی عربیہ، لیبیا، مصر، سوڈان، عراق اور قبرص پر اپنا حق جتائے گا۔
4۔علاوہ اسکے،مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی تحویل بھی چاہے گا۔
5۔شام میں پراکسی جنگ جاری ہے اور وہاں کی زمین پر قبضہ۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں بڑی طاقتیں خاموش ہیں۔بیٹھینگی اور اسرائیل نے اس کے انتظامات ابھی سے کر رکھے ہیں کہ پورا مشرق وسطیٰ، سعودیہ سمیت اس کے حکم کا منتظر ہے۔اور سیاحت کے حوالے سے نیام(NEOMS)سعودی عربیہ کا جدید شہر بن رہا ہے۔جہاں ہر چیز ہر جگہ عجوبہ ہوگی۔کہنے کو سعودی عربیہ کو اس کے تیل کے ذخائر ختم ہونے کے بعد یہ شہر زرمبادلہ کا ذریعہ بنے گا۔اسے مغرب کی زبان میں نیا فرنیٹر کہا جارہا ہے۔اس شہر کی سرحدیں اقابہ کے ساتھ ساتھ ہیں۔اور اس کی آڑ میں مغربی طاقتیں کونسا کھیل کھیلنیگی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس خطے میں حالات بگڑ سکتے ہیں۔ترکی کے لئے ایک بار پھر مشکلات کا سامنا ہوگا حال ہی میں لیرا کا گرایا جانا اور مہنگائی کا بڑھنا جو ہمیں نظر نہیں آئی اور نہ ہی بھرا گرنے سے ترکوں کی مالی حالت بگڑی ہے جیسا کہ پہلے لکھ چکے ہیں۔عوام حکومت سے زیادہ خود پر اعتماد کرتے ہیں اس کا ثبوت پورے ترکی کو بغور دیکھنے کے بعد ہی مل سکتا ہے۔سیاحت کا بڑھائو، بھاری مشینری، الیکٹرانک، کپاس، اسٹیل، سیمنٹ ا ور کاریں اس وقت زرمبادلہ772بلین ڈالر ہے۔ترکی نے اس زمین سے نکلنے والی ہر چیز کا کارآمد بنایا ہے۔صرف کار اور بسوں سے22بلین کمپیوٹر سے17بلین ڈالر، اسٹیل9بلین ڈالر پکڑے۔85بلین ڈالر۔پلاسٹک۔8بلین ڈالر قیمتی پتھر جو ابرات۔8بلین ڈالر۔فروٹ اور خشک میوہ5بلین ڈالر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ترکی باہر کی کسی چیز کا محتاج نہیں ہر چند کچھ لوگ اردوگوان پر کرپشن کا لیول لگا چکے ہیں۔لیکن اردگوان جو2023تک صدر رہینگے۔بہت ہوشیاری سے اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔اکثریت ہم سمجھتے ہیں کمال اتاترک کے بعد ان کے ساتھ ہے۔صرف سیاحت سے ترکی کو20فیصدی زرمبادلہ ملتا ہے۔رشوت ستانی کا مرض وہاں نمک کے برابر ہی ہوسکتا ہے۔
اب جب پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی ادارہ کام کرنا نظر نہیں آتا۔پچھلے ساڑھے تین سال میں جو بھی کچھ ہوا ہے عوام کو بے حال کر رکھا ہے۔مہنگائی مہنگائی مہنگائی، غلط پلاننگ کرپشن کی چھوٹ اقرباپرستی۔سارے جرائم یا وبائیں پاکستان میں جڑ پکڑ گئی ہیں۔اور ملک کھوکلاہوچکا ہے۔سیاحت کو فروغ نہیں ملا ہے۔تعلیمی ڈھانچہ عام طلبا کی دسترس سے باہر ہے۔عدلیہ عرصے سے اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ریٹارڈ ہونے کے بعد عدلیہ کے جج دوسرے ملک میں بستے ہیں اور غلط بیانی کرتے ہیں اور اپنی بدمعاشیوں اور مکاریوں کو بتا کر عدلیہ پر رہے سہے بھروسے کو بھی ختم کرتے ہیں۔ایک صوبہ پر نہایت ہی بدعنوان طبقہ کا قبضہ ہے اور وفاق ان کے سامنے اپاہج ہے۔دوسرا صوبہ باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔جو کچھ اگر ہو رہا ہے۔وہKPKاور پنجاب میں ہو رہا ہے۔کہہ سکتے ہیں۔پاکستان سکڑ رہا ہے۔باجوہ صاحب کچھ بھی کہیں حقیقت سامنے ہے۔ایک عورت کو لیفٹیننٹ جنرل بنانے کا ڈھنڈورا پیٹنے سے ملک طاقتور نہیں بنتے اگر عوام ادھ مرلے ہوں۔اور دوسروں کے بچھائے ہوئے دستر خوانوں پر پیٹ بھریں ،ترکی ہمیں یہ بھی سکھانا ہے کہ قوموں کی ترقی اور حکمرانی ایک قوم بن کر رہنے میں ہے۔اور پاکستان میں ایسا ہونا ناممکن ہے جس ملک میں سزا یافتہ چور ڈاکو قاتل آزادی سے بڑک لگاتے رہیں تو سمجھ لیں کہ ملک ان کا یرغمال ہے ان سے نبٹنے کے لئے فوری طور پر عدلیہ کو بنانا ہوگا۔اور قانون میں ترمیم کرنی ہوگی حالیہ تحریک لبیک کے ہنگاموں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اب ان کو لگام دینا ضروری ہے۔دوسرے معنوں میں مذہب کو سیاست سے علیحدہ کرنا ہوگا البتہ سیاستدانوں میں اللہ اور رسول کا خوف پیدا کرنا ضروری ہوگا یہ کیسے ممکن ہے۔ایک ہی طریقہ300بدمعاشوں کو سولی پر چڑھا دو۔
٭٭٭