جاہل اور سیاسی جج!!!

0
90
شبیر گُل

ریاست ہوگی ماں کے جیسی…ہرشہری سے پیار کرے گی
انسانی زندگی کے دوہی راستے ہیں ، رحمان کا راستہ اور شیطان کا راستہ ، رحمان کا راستہ عظمت والا راستہ ہے۔ اور شیطان کا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔ہم رحمان کو چھوڑ کر شیطان کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ ہمارے ججز رحمان کے راستے کو چہوڑ کر شیطان کے راستے پر چل نکلے ہیں۔کرپشن کو شعار بنا لیا ہے۔کرپشن سے اخلاقیات اور قومیں تباہ ہو جایا کرتیں ہیں۔ اللہ انسان کو طاقت اور منصب دے کر آزماتا ہے۔پاکستان مین طاقتور کو تو انصاف فراہم کر دیا جاتا ہے ۔ اور کمزور کو رسوا ۔ جو قوم انصاف نہیں کرسکتی وہ تباہ ہو جاتی ہے۔ یہ عہدوں کے لحاظ سے بڑے لوگ ہیں۔ لیکن کردار میں انتہائی چھوٹے۔ بڑا انسان وہ ہوتاہے۔ جو کردار میں بڑا ہو۔مشرف دور میںججز کی حمائت میں چلنے والی تحریک میں (ریاست ہوگی ماں کے جیسی )اس نعرہ نے بہت اہمیت حاصل کی تھی ۔ قوم نے جسٹس افتحار جیسیکانے دجال کو دیکھا۔ جس کے سیاسی مقاصد تھے۔ ڈوگر کورٹ کو دیکھا۔ ملک قیوم ،نسیم حسن شاہ اور اس جیسے کئی ضمیر فروش ججز کو دیکھا۔جوسیاسی ہمدردیاں رکھتے ہیں۔ قارئین !۔ اکثر دیکھاگیا ہے۔ کہ سر شام گلیوں اور بازاروں میں آوارہ کتے ۔ گزرنے والوں پر بھونکتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو ان پر نہیں بھونکتے ۔دبک جاتے ہیں۔ ۔ ڈنڈے کے خوف سے ایسے آوارہ کتے سہم جاتے ہیں۔ آج ایسا ہی حال ھمارے ملک کے 95 فیصد ججز کا ہے۔ یہ وہ آوارہ کتے ہیں۔ ۔جو کرپٹ سیاسی اشرافیہ،جرنیلوں ،قاتلوں،بھتہ خوروں اور قبضہ مافیا پر نہئں بھونکتے یہ شرفا، غریب پرور اور محب وطن افراد پر بھونکتے ہیں۔ یہی وہ کتے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان میں غریب کو بے سکون اور لاوارث کر دیا ہے۔ ظلم ،ناانصافی ،لاقانونیت اور مہنگائی کے ہاتہوں خودکشیوں کے پیچہے۔ یہی غیرت فروش جج ہیں۔ ۔ انسان اور انصاف کا روپ دھارنے والے یہ کتے غریبوں، محب وطنوں اور قانون کا احترام کرنے والوں پر بھونکتے ہیں ۔ قانون توڑنے والوں کا احترام کرتے ہیں۔ ۔ تم کون ہو؟پاکستان کا جج پیسوں کے لئے اپنی ماں بیچ سکتا ہے۔امریکی جج بڑے بڑے محلات، بڑے بڑے پروٹوکول، سالانہ کڑوڑوں کی تنخواہ پانے والے۔ بیرون اور اندرون ملک اربوں کی جائدادیں بنانے والے ،بزنس مینوں، سیاستدانوں اورقاتلوں کی نجی مخافل میں رقص و سرور کرنے والے ملکی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں،ان ظالموں سے کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ آپکی اتنی دولت کا راز کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے جج نے کراچی کا مقدمہ لڑنے والے جرآت مند ۔ نڈر اور بیباک امیر کراچی خافظ نعیم الرحمان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں۔ ۔ جج صاحب کراچی کے سپوت،کراچی اور سندھ کی آواز کو پوچھتے ہیں۔ کہ آپ کون ہیں۔ ملک ریاض کو نانی یاد کرانے والے شخص سے پوچھتے ہیں۔ کہ آپ کون ہیں۔ غنڈوں ، بدمعاشوں اور بھتہ خوروں کی نیند حرام کرنے والے سے پوچھتے ہیں۔ کہ آپ کون ہیں۔ مزدوروں ، طالبعلموں اور پسے ہوئے طبقے کے سر پر ہاتھ رکھنے والے سے پوچھتے ہیں۔ کہ آپ کون ہیں۔ ۔ جناب جسٹس صاحب خافظ نعیم الرحمان ایک عام شہری ہیں۔ ۔نہ تو بوٹوں والی سرکار ہیں۔ اور نہ الطاف گروپ کے دہشت گرد ، جن کو دیکھ کر آپ لوگوں کی پتلون گیلی ہوتی تھی۔ نہ سیاسی وڈیرے ہیں۔ اور نہ نوٹوں کی بوریاں آپ کے گھر پہنچائے والے ۔
یہ نہ تو آپ جیسے دلال ہیں۔ اور نہ ہی ایمان فروش ۔ نہ آپ جیسے بے حیا ہیں۔ اور نہ ہی غیرت سے عاری منصف ۔ یہ تو عام شہری کے حقوق کی جنگ لڑنے والے نہتے ، اور جرآت کا پیکر پاکستانی ہیں۔ خافظ صاحب نے ملک ریاض سے سینکڑوں مظلوموں کو پیسے دلوائے۔ جو درجنوں سینٹرز، درجنوں ایم این ایز اور درجنوں جرنیل،ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ اور صحافت کو جیب میں رکھنے والا انتہائی بااثر قبضہ مافیہ ڈان ملک ریاض ۔ جو اب انگلینڈ میں داخل نہیں ہوسکتا۔پاکستان میں ججز کی ملی بھگت سے کھربوں کی زمین پرقابض ہو چکاہے۔
ایک طرف برطانیہ کے کافر جج نے ملک ریاض اور اس کی بیٹے پر انگلینڈ میں داخلہ پر پابندی لگا دی ہے۔ ۔ انکا کہنا ہے۔ کہ ملک ریاض کرپٹ ترین آدمی ہے۔ ھماری سر زمین پر ایساکرپٹ آدمی قدم نہیں رکھ سکتا۔
دوسری طرف پاکستان کامسلمان اور کلمہ گو جج ریاست مدینہ میں غریب لوگوں کے گھر گرا رھا ہے۔ جن کو نہ کو ئی compensation ہے۔ اور نہ ہی کوئی دوسری جگہ مہیا کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے۔ کہ نسلہ ٹاور کے یا جن کی رہائش گائیں گرائی جارہی ہیں۔ انکے documents accept نہیں کئے جائینگے چاہے وہ 1956 کے ہوں یا 1973 کے۔
میرا چیف جسٹس سے سوال ہے۔ کہ اگر آپ یہ کاغذات قبول نہیں کرتے تو پھر دارالخلافہ کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کیسے جائز ہے۔ پاکستانی ججوں کی اکثریت اور جیوڈیشری میں بیٹہے۔ منصف وہ ہیں۔ جو دہشت گردوں،قاتلوں، بھتہ خوروں سے ڈر کر فیصلے لکھتے ہیں۔ نوٹوں کی بوریاں اور مجرم کی دہشت دیکھ کر فیصلے لکھتے ہیں۔ بوٹوں کی ٹاپ اور سیاسی گماشتوں کی غنڈہ گردی کا وزن دیکھ کر فیصلے لکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خافظ قرآن نے جب جج کے لئے کوالیفائی کیا تو تو جوڈیشل بورڈ نے خافظ قرآن کو ایک متقی اور قرآن کا خافظ ہونے کی وجہ سے جج لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ خافظ قرآن کو جج نہئں لگایا جاسکتا۔
یعنی اس ملک میں بدمعاش، بددیانت،آئین اور ماں فروش کو جج لگایا جاسکتا ہے۔ جو آئین پاکستان کا، قرآن اور سنت کا باغی ہو اسے جج لگایا جاسکتا ہے۔ شرابی، ذانی اور بدکار کو جج لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک خافظ قرآن ،صوم وصلوات کا پابند منصف نہیں ہوسکتا۔ دغا باز ،خرامخور اور ماں کو چند ٹکوں کے عوض بیچنے والا جج ہوسکتا ہے۔ اس مل کا جج ایک ہندو بھگوان داس تو ہو سکتا ہے۔ ۔ لیکن قرآن کا خافظ نہیں۔
*ٹنڈو محمد خان کے ایک جج صاحب نے گاں بخشو خان بڑدی کی ایک مسجد میں فجر کی اذان بند کروانے کا فرمان جاری کردیا ہے اور اس حکم کی تعمیل کے لئے افسران بھی پہنچ گئے اور مسجد کے پیش امام اور موذن کو حکم دیا کہ جج صاحب کی نیند خراب ہوتی ہے اس لئے فجر کی اذان لاڈ-اسپیکر پر نہ دی جائے ، جج صاحب اگر فجر کی اذان سے آپ کی نیند خراب ہوتی ہے تو براہ مہربانی اپنی رہائش کا بندوبست کسی ایسے مقام پر کرلیں جہاں اذان کی آواز سنائی نہ دے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کوئی انڈیا نہیں جہاں اذان پر پابندی عائد کی جائے۔آپ کے اس فرمان پر ہم بحیثیت مسلمان بھرپور احتجاج کریں گے اور اگر آپ کو توہینِ عدالت لگانی ہے تو ہزار دفعہ لگائیں ہم اسے اپنے لئے باعث فخر اور باعث شرف سمجہیں۔ گے لیکن اس مذموم سازش کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
آپکا شائد باپ پیسہ ہے، آپ اللہ کو نہیں قومی مجرموں ملک ریاض،آرمی چیف،زرداری،نواز شریف یا عمران خان کوجوابدہ ہیں ،اسلئے اپنے منصب نے بے انصافی آپکا شعار ہے اگر اپنے باپ کے سلب سے ہوتے تو امیر غریب کو ایک جیسا ٹریٹ کرتے۔ چینی،آٹا، قبضہ مافیا پر ہاتھ ڈالتے۔ غریبوں کی بستیاں نہ اجاڑتے ۔ لوگوں سے انکی چھت نہ چھینتے۔ریاست مدینہ کی علمبردار کے بنی گالا پر ہاتھ ڈالتے۔ زرداری اور نواز شریف کے ناجائز محلات گراتے۔ جرنیلوں اور فوجی غنڈوں کی کالونیوں اور زمینوں پر ہاتھ ڈالتے۔
لیکن بکے ہوئے ، پیسوں کے پجاری ، ایمان اور قلم فروش انصاف مہیا نہیں کرسکتے۔ یہ درندے ہیں۔ بھکاری ہیں۔ جنہوں نے ریاست کوجو ماں جیسی ہوا کرتی ہے ، اسکا سودا کرلیا ہے۔
جج کا کہنا ہے۔ کہ گرا دو، جلا دو، بھسم کردو، بندے مزید لگا کر فوری نسلہ ٹاور کو زمیں بوس کردو۔ مال و دولت اور عہدہ نہیں انسان میں غیرت بہت ضروری ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ فرعون کو اللہ نے نشان عبرت بنایا ہے۔ لیکن ہم سبق نہ سیکھ سکے۔ عدالتوں میں بیٹھے۔ فرعون آج بھی زندہ ہیں جن کے لہجے میں رعونیت، فیصلوں میں بددیانتی اور منصب سے غداری عیاں ہے۔ ایک ملک ایک عدالت دو فیصلے۔ امیر اور طاقتور کے لئے اور غریب اور کمزور کے لئے اورجس بستی میں ہم بستے ہیں، روٹی مہنگی اورہم سستے ہیں۔
یاد رکھیں اوپر ایک عدالت اللہ کی بھی ہے۔ جہاں انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ہم میں سے بھی اکثر احباب،طاقت کے ذعم میں فرعونی رویہاپنا لیتے ہیں۔ ریاست کی تین ستون ہوا کرتے ہیں۔ جو نظام حکومت چلاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ، اسکا چوتھا ستون بھی ہے۔ بدقسمتی سے چوتھا ستون بھی پہلے تین ستونوں کیطرح بکا ہے۔
پچانوے فیصد صحافی جھوٹ لکھتے، جھوٹ بولتے ہیں۔ دہشت گردوں، بدمعاشوں اور قاتلوں کو اپنے صفحات پر جگہ دیتے ہیں۔ نظریہ پاکستان اور اسلام دشمنوں کو جگہ دیتے ہیں۔ ان چاروں ستونوں پر جرنیل، دوسرے پر کرپٹ سیاستدان، تیسرے پر غیرت سے عاری جج اور چوتھے۔ پر لفافے صحافی براجمان ہیں۔ دراصل یہ غیرت کے معنی سے نابلد ہیں۔ہم خافظ نعیم الرحمان کی جرآت کو سلام کرتے ہیں۔
جس کام کا بیڑا جماعت اسلامی اور خافظ نعیم الرحمان نے اٹھایا ہے۔ اسکو ہضم کرنا لفافہ صحافی اور بے ضمیر گماشتوں کے بس میں نہیں۔ قیامت کی نشانی ہے کہ ٹی وی پر جرنیل اور سابق جج ،کرپشن کے خاتمے اور Ethics پر درس دے رہے ہوتے ہیں جیسے ہمارے کچھ اسلامی اسکالر، دینی رہنما اور مذہبی تنظیموں کے عہدیدار ایمانت و دیانت پر لیکچر دے رہے ہوتے ہیں جن آیات کی تلاوت فرماتے ہیں۔ کبھی اپنی ذات پر implement نہیں کرتے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here