اگر میں نہیں تو پاکستان نہ کھپے!!!

0
105
رمضان رانا
رمضان رانا

اگرچہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمنٹوں کی تشکیل وتحلیل جمہوریت کا حصہ ہے کہ جب عوام کی منتخب نمائندگان پر مشتمل قانون ساز ادارے بنائے جائیں۔ جس کی آئین پاکستان کے مطابق پانچ سال تک مدت مقرر ہے جو کسی بھی وقت توڑی جاسکتی ہے بشرطیکہ پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اکثریت کھو بیٹھے ورنہ پارلیمنٹ کو بلاجواز تحلیل کرنا قومی جرم ہے جس میں ووٹرز کی بے حرمتی بھی شامل ہے جو اپنے نمائندگان پارلیمنٹ میں اپنے مسائل کے حل کے لئے بھیجتے ہیں۔ جن کو ایک آمر اور جابر ذہن ہائوس ٹریڈنگ کے نام پر غلام بنا لیتا ہے جن کا ووٹ عوام کا نہیں پارٹی کے سربراہ کا مرہون منت ہوجاتا ہے جو اپنے ضمیر کے خلاف ووٹنگ کرتا نظر آرتا ہے جس کا مظاہرہ پاکستان میں ہوا ہے کہ کل دو صوبوں کی پارلیمنٹوں کو بلاجواز اور بدنیتی پر مبنی سوچ پر تحلیل کردیا گیا ہے۔ کیونکہ حکمران پارٹی کا سربراہ کا بیانیہ ہے کہ اگر میں نہیں تو پاکستان نہ کھپے لہذا موجودہ دو صوبوں کی پارلیمنٹوں کو اس لئے تحلیل کیا گیا ہے۔ تاکہ مرکزی حکومت کو مجبور کیا جائے گا۔ کہ وہ قومی اسمبلی بھی تحلیل کر ڈالے تاکہ قبل ازیں مدت پوری ہونے سے پہلے انتخابات کرائے جائیں حالانکہ عمران خان کی اس وقت ملک 80فیصد پاکستان پر حکمرانی ہے یا تھی جس میں چار سالہ مرکز دس سالہ پختونخواہ پانچ سالہ پنجاب کے علاوہ کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہیں۔ جن کا حساب وکتاب نہیں دیا جا رہا ہے کہ آپ نے دو صوبوں اور دو علاقوں میں کیا کیا ہے چونکہ عمران خان پاکستان پر80فیصد حکمرانی کے باوجود اپنے فاشنرم نظریہ پر قائم ہے کہ پاکستان میں میری حکمرانی تاحیات ہو جس میں کسی کی مداخلت نہ ہو۔ اگر میں ہوں تو پاکستان ہو ورنہ ملک جائے بھاڑ میں یہ وہ نظریہ ہے جو ملکی سلامتی کے خلاف بن چکا ہے۔ جس کے تانے بانے غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ملتے ہیں جو پاکستان کے وجود کے خلاف ہیں لہذا ایسا اوقات پاکستان کے عوام کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھیل کر ملک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ جس طرح ماضی میں جنرلوں نے ہم وطنو کے نام پر پاکستان توڑا اور برباد کیا ہے آج وہ عمران خان کی شکل میں پاکستان پر حملہ ہو کر تتر بتر کرنے پر تلا ہوا ہے جن کا کوئی عوامی ایجنڈا نہیں ہے کہ عوام کے لئے ماضی میں کیا تھا جب وہ مرکز اور دو صوبوں میں حکمران تھا تاہم پاکستان آج نازک ترین دور سے گزر رہا ہے جس میں عمران خان کا منفی کردار اور اعمال شامل ہیں۔ جو ملک میں آئینی نظام کو پلیٹ کرنا چاہتا ہے جن کا ارادہ ہے کہ پاکستان میں قدیم بادشاہت یا سلطانیت نما حکمرانی قائم کی جائے جس میں عوام کی نمائندگی کی بجائے نورتوں کا دور دورہ ہو۔ یہی وجوہات ہیں کہ وہ سابقہ مقدس مدینہ ریاست کا نام لینا آتا ہے جس کے لئے اس جنرلوں اور ججوں نے حضور پاکۖ کے بعد عمران خان کو صادق و آمین کا قانونی لقب دیا تھا تاکہ وہ مدینہ ریاست کی خلافت راشدہ کو بدنام کر پائے ورنہ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگوپتلی وہ شخص جو ایک بنا شادی ایک بیٹی کا باپ ہو پلے بوائے رہا ہو جنسی اسیکنڈلز بیچتا رہا ہو خوا دی رہا ہے بد کرداریوں اور بداعمالیوں کا سرغنہ ہو کرپشن کا گارڈ فادر ہو بیت المال کا چور ہو۔ شوکت خانم کے نام پر زکواة صدقات فطرانے لے کر رکھا گیا ہو۔ عالی شان محلوں میں قیام پذیر ہو وہ مقدس مدینہ ریاست کا نام لے کر حضور پاک کا باغی کہلا سکتا ہے۔ بہرحال عمران خان نے پاکستان میں جو انتشار اور خلفشار پیدا کیا ہے جس کے متاثرین امراء جنرل جج صاحبان ہوچکے ہیں۔ جو اپنے محب وطن ساتھیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں وہ اب رنگ لائے گا جب وہ دوبارہ سازشوں سے برسراقتدار آیا تو ایک اور نیازی کے بعد پاکستان پھر ٹوٹے گا جس کا اعلان دوسرا نیازی کریگا جس کا بھارت میں جشن کا سماں بن چکا ہے کے وہ کام جو بھارت نہ کر پایا تھا وہ عمران خان نیازی کر رہا ہے۔ آج پاکستان سیاسی معاشی اور مالی سماجی اور اخلاقی طور پر کمزور ترین ملک بن چکا ہے جس کی ترقی کی بجائے قرضے ڈھونڈنے میں وقت گزر رہا ہے جس کے نتائج ملکی سلامتی کو خطرات لاحق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here