ملک پر بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ اور معاشی حالت خراب ہونے پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک ہی روز مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔کراچی میں ایک تقریب کے شرکا سے خطاب کے دوران صدر مملکت نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز مل کر ملک کو درپیش مالی مشکلات سے نکالیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر بات کرنا اور ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ بات باعث شرمندگی ہے کہ ایٹمی ریاست پاکستان کے نمائندے ہاتھ میں کشکول لئے ملکوں ملکوں پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت متحدہ عرب امارات سے قرض لینا نہیں چاہتی تھی لیکن مالیاتی مشکلات کے باعث ایسا کرنا پڑا۔ان کی جانب سے یہ اعتراف اہم ہے کہ 75برسوں کے دوران پاکستان کی حکومتوں نے اپنے وسائل اور وقت کو برباد کیا۔ اس وقت پاکستان کی معیشت قرض پر سانس لے رہی ہے۔معیشت چلانے کے لئے ریاست برسہا برس سے بیرونی امداد کے پراجیکٹ بروئے کار لاتی رہی ہے۔اس دوران کئی ایسے مواقع پیدا ہوئے جب بین الاقوامی برادری پاکستان سے بھر پور تعاون پر تیار تھی لیکن حکومتوں کے پاس موثر پالیسی اور لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ مواقع ضائع جاتے رہے۔امریکہ نے سوویت یونین کے مقابلے میں افغان جہاد لانچ کیا۔پاکستان کے بنا یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی تھی۔اس وقت کی حکومتوں نے معیشت کو امریکی امداد کا محتاج بنا دیا۔دہشت گردی کے خلاف 20سال تک لڑی جانے والی جنگ کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔اگرچہ اس بار امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کا تعاون غیر مشروط نہیں تھا لیکن یہ گنجائش موجود تھی کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ادویات خوراک صاف پانی اور روز مرہ ضروریات کی پاکستانی صنعتوں کو مضبوط کیا جاتا۔یہ موزوں وقت تھا جب نئی ٹیکنالوجی پاکستان کو مفت یا برائے نام قیمت پر میسر آ سکتی۔2005 کے زلزلے۔2010 سے 2015 تک آنے والے سیلابوں کورونا وبا اور اب اگست 2022 کے سیلاب کے دوران بحالی کے منصوبوں افلاس زدہ طبقات کی امداد اور ضروریات کے حوالے سے جس قدر منصوبہ بندی ہوئی وہ غیر ملکی تعاون پر انحصار کرتی ہے۔دوسرا پہلو یہ سامنے آیا کہ قدرتی آفات کے دوران ملنے والی امداد بتدریج قرضوں کی شکل اختیار کر گئی۔پاکستان کی حکومتیں اس بات کا ادراک نہیں کر سکیں کہ عالمی برادری اس کے روز روز کے معاشی مسائل کو اب ہمددی سے دیکھنے کی بجائے کسی اور صورت میں دیکھنے لگی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کشکول کا حوالہ دینا اسی صورتحال کی علامت ہے۔ ملک کی صورت حال کسی قدر خراب ہو تو حکومت عام شہریوں اور نمایاں کردار کے مالک طبقات کو اپنا طرز عمل ذمہ داری پر استوار کرنا ہوتا ہے۔حالیہ دنوں دیکھا گیا کہ جب وزیر اعظم اور دیگر اعلی حکام نے سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کے ساتھ نئے معاشی منصوبوں اور مالیاتی تعاون پر بات چیت کا عمل شروع کیا تو اسے بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات لازوال ہیں ۔ان تعلقات کی جڑیں دونوں کے ممالک کے عوام کے درمیان ہیں۔ دوستی کا جذبہ انہیں عالمی سیاست میں اکٹھا کرتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں 10 ارب ڈالر تک کہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتیں ان تعلقات کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں، ان کی مہم کا حصہ بن کر نا سمجھ طبقات ایک دوست کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا سبب بن سکتے ہیں ،ساتھ ہی معاشی ضرورت کے وقت دستیاب لائف لائن متاثر ہو سکتی ہے۔اس عمل کا اہم پہلو یہ ہے کہ تنقید کے دوران دوست ممالک کے متعلق غیر محتاط اسلوب میں بات کی گئی۔سیاسی معاملات پر ہر جگہ بات ہوتی ہے معاشی پالیسی درست نہیں تو اس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ جانتے ہوئے کہ قومی معیشت رواں رکھنے کے لئے دوست ممالک کس طرح تعاون فراہم کر رہے ہیں ان پر تنقید ایک نامنسب عمل ہے۔اس نوع کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ ایسے طبقات موجود ہیں جو مشکل وقت میں ملک کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔صدر مملکت جب کہتے ہیں کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر درپیش مالی مشکلات کا حل نکالنا چاہیے تو اس میں وہ گروہ بھی شامل سمجھے جانے چاہئیں جو مشکل وقت میں کام آنے والے دوستوں کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ یہ امر اب کسی شک و سبہ سے بالا ہے کہ حکمران اشرافیہ اقتدار کی کشمکش میں ملک کو لاحق بنیادی مسائل سے چشم پوشی کی مرتکب ہوئی ہے۔دنیا تیزی سے بدل رہی ہے پسماندہ معاشرے دوچار سال میں بہتر حکمت عملی اختیار کر کے خوشحال ہو رہے ہیں۔ٹیکنالوجی کی نئی شکلوں نے دولت مندوں کی صفیں تبدیل کر دی ہیں۔ماضی بعید نہ سہی 2008 کے بعد آنے والی حکومتوں کی سائنس و ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کسی کو دنیا کے ساتھ مسابقت کا خیال نہیں رہا۔ پاکستان خراب مالی حالات کا شکار اس لئے نہیں کہ یہاں کے لوگ کام نہیں کرتے مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں ایسے منصوبے متعارف نہیں کرا سکیں جو محنت کا زیادہ معاوضہ دلا سکتے۔آئندہ انتخابات کی آمد آمد ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کو معاشی بحالی اور قومی خود مختاری تحفظ دینے والے منصوبوں کو اپنے منشور کا حصہ بنانا چاہیے۔ پاکستان ہر نوع کے وسائل سے بھر پور ریاست ہے۔ اس کی معاشی مشکلات کا کم نہ ہونا قیادت کی نااہلی سمجھا جاتا ہے۔
٭٭٭