ارشد ندیم اور نوح دستگیر بٹ بلاشبہ پاکستان کے ہیرو ہیں، یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی لگن سے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا مگر ان روشن ستاروں کی داستان سنی جائے تو ایسے سیاہ باب سامنے آئیں گے کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، کسی کے پاس ٹریننگ کے لیے کچھ نہیں تھا، تو کوئی کوچ کی رہنمائی سے محروم تھا، پاکستان میں سپورٹس کے فروغ کے لیے قائم ادارے سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر ان کی ترجیحات میں ایسے کھلاڑی دور دور تک نظر نہیں آتے جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیت چھپا رکھی ہیں، اس کو ہمارے معاشرے اور حکومت کی منافقت کہیے کہ آج جب یہ دونوں کھلاڑی عالمی مقابلوں میں اپنے ملک کے گولڈ میڈل حاصل کرچکے ہیں تو صدر، وزیراعظم، آرمی چیف سمیت جانے کہاں کہاں سے مبارکبادیں دی جارہی ہیں، مگر یہ مبارکبادیں کیا پاکستان میں ایسے کھلاڑیوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکیں گی، کھیل کے ان میدانوں کو آباد کر سکیں گی جو مدتوں سے ویران پڑے ہیں یا ان دونوں کھلاڑیوں جیسے دیگر کئی افراد کو مستقبل میں اس بات کی گارنٹی دے سکیں گے کہ حکومت پاکستان ان ان کی تربیت اور کھیل کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بھرپور مدد کرے گی۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو ایسے کھوکھلی مبارک بادوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ مدتوں پہلے سنوکر کے میدان میں اسی طرح محمد یوسف فائنل میں دیکھ کر پاکستان کا نام روشن کر چکے ہیں مگر اس کے بعد کیا پاکستان میں سنوکر کھیل کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات ہوئے، ماضی میں جھانکیں تو صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔
درحقیقت یہ کھلاڑی ہیں پاکستان کے اصل سفیر ہیں جو کہ دنیا کے مختلف میدانوں میں جا کر پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں، حکومت پاکستان کو اب کرکٹ جیسے کمرشل کھیل سے کچھ وقت نکال کر ایسے سے کھلاڑیوں کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو اپنے بل بوتے پر پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے پرجوش نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں بلاشبہ اتنا ٹیلنٹ موجود ہے کہ اگر انہیں تھوڑی سی بھی توجہ دی جائے تو کئی اور کھیل کے میدانوں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم آپ کو بلند ہوتا ہوا دکھائی دے گا، مگر جانے کیوں پاکستان میں اتنا سوچنے کا وقت حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی ان کے اداروں کے کانوں پر جوں رینگی ہے جو ان کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے بنائے گئے ہیں، کھیل کو فروغ دینے کے لئے مستقل پالیسی نہ ہونے کا نقصان کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ پاکستان کے بڑے نامور کھلاڑی آج گمنامی کی زندگی جی رہے ہیں، ارشد ندیم اور نوح دستگیر بٹ کے جذبے کو اگر زندہ رکھنا ہے تو ہمیں ان کھیل اور کھلاڑیوں کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے بطور قوم بھی حکومت پر دبا ڈالنا ہوگا، وگرنہ ان کھوکھلی مبارک بادوں کا کوئی فائدہ نہیں۔
٭٭٭