فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
28

محترم قارئین! حضرت دائود طائی رضی اللہ عنہ علوم حقائق کے شنا ساراہ طریقت کے حامل اور سالکین وعارفین کے پیشواو مقتداء تھے اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے شرف تلمذ حاصل رہا حتٰی کہ مسلسل بیس برس امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کرتے رہے۔ یوں تو تمام علماء پر آپ کو دسترس حاصل تھی لیکن فقہ کے علم میں اپنا نمونہ آپ ہی تھے اور آپ حضرت حبیب راعی رضی اللہ عنہ کے ارادت مندوں میں داخل تھے، لیکن حضرت فضل وحضرت ابراہیم ادھم جیسی ہرگزیدہ ہستیوں سے بھی شرف نیاز حاصل رہا۔ آپ کے تائب ہونے کا واقعہ اس طرح منقول ہے کہ کسی گویے نے آپ کے سامنے مندرجہ ذیل شعر پڑھا۔
کون سا چہرہ خاک میں نہیں ملا اور کون سی آنکھ زمین پر نہیں بہی۔ یہ شعر سن کر عالم بے خودی میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ اور اپنا پورا واقعہ بیان کرکے کہا کہ میری طبیعت دنیا سے اچاٹ ہوچکی ہے اور ایک نامعلوم چیز قلب کو مضطرب کئے ہوئے ہے۔ یہ سن کر امام صاحب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گوشہ نشینی اختیار کرلو۔ چنانچہ اسی وقت سے آپ گوشہ نشین ہوگئے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد امام اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب یہ بہتر ہے کہ لوگوں سے رابطہ قائم کرکے ان کی باتوں پر صبر وضبط سے کام لو۔ چنانچہ ایک برس تک تعمیل حکم میں بزرگوں کی صحبت میں رہ کے ان کے اقوال سے بہرہ ور ہوئے۔ لیکن خود ہمیشہ خاموش رہتے تھے۔ اس کے بعد حضرت حبیب راعی سے بیعت ہو کر فیوض باطنی سے سیراب ہوتے رہے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہ کر عظیم مراتب سے ہمکنار ہوئے۔ ورثہ میں آپ کو بیس دینار ملے تھے۔ اور بیس سال اس سے اپنے اخراجات کی تکمیل کرتے رہے اور جب بحض بزرگوں نے کہا کہ دینار جمع کرکے رکھنا ایثار کے منافی ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہی دنیا زندگی بھر کے لئے باعث طمانیت ہیں۔لیکن قناعت کا یہ عالم ہے کہ روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے اور فرمایا کرتے کہ جتنا وقت لقمہ بنانے میں صرف ہوتا ہے اسی دیر میں پچاس آیتیں قرآن پاک کی پڑھ سکتا ہوں۔ ایک مرتبہ ابوبکر عیاش آپ کے ہاں پہنچے تو دیکھا کہ روٹی کا ٹکڑا ہاتھ میں لئے رو رہے ہیں۔ اور جب حضرت عیاش نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ دل تو یہ چاہتا ہے کہ اس کو کھائوں لیکن یہ پتہ نہیں کہ رزق حلال بھی ہے کہ نہیں ایک شخص نے آپ کے ہاں پانی کا گھڑا دھوپ میں رکھا ہوا دیکھ عرض کی کہ اس کو سایہ میں کیوں نہیں رکھا؟ فرمایا کہ جس وقت میں نے یہاں رکھا تھا اس وقت سایہ تھا ،محض اپنی راحت کے لئے تضیع اوقات کرتے ہوئے ذکر الٰہی سے غافل رہوں۔ آپ کا مکان بہت وسیع تھا لیکن جب اس کا ایک حصہ منہدم ہوگیا تو آپ دوسرے حصہ میں منتقل ہوگئے اور جب بھی وہ منتقل ہوگیا یعنی گر گیا تو آپ دروازے کی طرف ہوگئے۔ لیکن اس کی چھت بھی بہت بوسیدہ تھی اور جب لوگوں نے چھت ٹھیک کرانے کے لئے کہا تو فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کر چکا ہوں کہ دنیا میں تعمیر کا کام نہیں کرائوں گا۔ اور آپ کے وصال کے بعد بقیہ چھت بھی گر گئی۔ جب لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ آپ صحبت مخلوق سے کنارہ کش کیوں رہتے ہیں؟ فرمایا کہ اگر کم عمر کے لوگوں میں بیٹھوں تو وہ ادب کی وجہ سے دینی علم نہیں سکھائیں گے۔ اور اگر معمر بزرگوں میں بیٹھوں تو وہ آگاہ نہیں کریں گے۔ یعنی عیبوں پر پردہ ڈالیں گے پھر میرے لئے مخلوق کی صحبت کیا سودمند ہوسکتی ہے؟ پھر کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا کہ نکاح کے بعد بیوی کے کپڑے روٹی کی کفالت یعنی پڑتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی کسی کا کفیل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں کسی کو دھوکا دینا نہیں چاہتا۔ پھر سوال کیا گیا کہ آپ داڑھی میں کنگھا کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا کہ ذکر الٰہی سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ آپ چونکہ مخلوق سے کنارہ کش رہ کر عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو عظیم مراتب عطا کئے گئے ایک مرتبہ چاندی سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ چھت پر چڑھ گئے۔ لیکن مناظر قدمت کی حیرت انگزیوں سے متاثر ہو کر عالم بے خودی میں ہمسایہ کی چھت پر گر پڑے۔ اور ہمسایہ یہ سمجھا کہ چھت پر چور آگیا ہے۔ چنانچہ و برہنہ شمشیر لئے ہوئے چھت پر چڑھا لیکن آپ کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھا کہ آپ پہنچ کیسے گئے یہاں پر؟ فرمایا کہ عالم بے خودی میں نہ جانے مجھ کو کس نے یہاں پھینک دیا؟ جب ہارون الرشید امام ابویوسف رضی اللہ عنہ کے ہمراہ آپ کے پاس بغرض ملاقات حاضر ہوا تو آپ نے ملاقات سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دنیا دار ظالموں سے نہیں ملتا۔ لیکن جب ہارون الرشید کی والدہ نے بے حد اصرار کیا تو آپ نے اجازت دے دی، اور جب ہارون الرشید رخصت ہونے لگا تو ایک اشرفی پیش کرنی چاہی مگر آپ نے واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اپنا مکان جائز دولت کے عوض فروخت کیا ہے۔ اس لئے میرے پاس اخراجات کے لئے رقم موجود ہے۔ اور میں یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ جب یہ رقم ختم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ مجھے دنیا سے اٹھا لے۔ آپ کے وصال کے وقت آسمان سے یہ ندا آئی کہ دائود طائی اپنی مراد کو پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے خوش ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فیضان جرات وبہادری اور زہروتقویٰ سے ہمیں وافر حصہ عطا فرمائے اور آپ کے درجے بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here