محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے گزشتہ مقالے میں جہاں موضوع ختم کیا تھا آج اس کو وہیں سے متصل کرتے ہیں کیونکہ روحانی تشریحات کو گہرائی میں جائے بغیر سمجھنا بلکہ سمجھانا ناممکن ہے یہاں بھی سیاہ و سفید اور جائز ناجائز والے معاملات سے واسطہ پڑتا ہے ۔شراب حرام ہے لیکن علاج کیلئے اس کا استعمال جائز ہے جبکہ دیگر ادوایات اثر نہ کریں تو فعل حیوانی کرنا حرام ہے لیکن اپنی منکوحہ کے ساتھ یہی فعل باعث ثواب ہے اور حلال ہے ۔
سمجانے کا مقصد یہ اس راہ سلوک کی منزل کے مسافر کو خود طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ کسی راستے کی طرف جانا چاہتا ہے کیونکہ مسافر کو بھٹکنے میں وقت نہیں لگتا اور ایک بار غلط راہ پر گامزن ہوگیا تو پھر دس بارہ برس کہاں گئیے سمجھ نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ اس شعبہ میں کامل اساتزہ کا ساتھ ہونا ہر موڑ رہنماء کرنا اشد ضروری سمجھا گیا اور اکثر قدیمی کتب میں لکھا گیا اور نصیحت کی گء کہ خود سے کچھ حاصل نہیں ہوگا خطرات بڑھ سکتے ہیں کسی استاد کی نگرانی میں اس علم و عمل کی منزلیں طے کی جائیں ۔جہاں تک ہمارا تعلق ہے آج کل کا انسان روئے زمین پر تاریخ انسان کے سب سے حیرت انگیز دور سے گزر رہا ہے ، ہوسکتا ہے کہ آئندہ کی حاکت اس سے بھی گراں ہو، یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ، زمیں پر جتنی بھی گزشتہ تہذیبی گزری ہیں ان میں سے سب سے زیادہ سہولت ، کشائش اور سب سے زیادہ ترقی بلاشبہ ہماری تہذیب میں ہے ،ایک نفسیات عرض کررہا ہوں جس کی تہہ تک پہنچنے اور فلسفہ حیات سمجھنے کے لیے مسلسل اقساط کا مطالعہ ضروری ہے ۔
آج ہم اپنی زندگی پر ایک نگاہ دوڑا کر فیصلہ کریں تو نتیجا یہ نکلے گا کہ ہم صرف پناہ گاہ کی تلاش میں رہے ہیں درحقیقت ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا، یہ صرف روحانی تفریح spiritual enterainment تھی ۔۔۔ اسی حثیت ایک آنسو گیس کی سی ہے جو چند سیکنڈ منٹ کے لیے رلاتی ہے پھر پرانی کفیت شروع۔۔
ہماری نفسیات مقصد انسانیت کو ترک کرکے صرف پناہ گاہوں کی تلاش میں سرگرم عمل ہے جو کہ صرف اپنے اپ کو صریح دھوکہ دیا جارہا ہے مثلا ایک خوشحال شخص پر اچانک آزمائش وقت آگاہی اب وہ علم سے ناآشنا ہے بجائے اللہ رسول کا قرب حاصل کرنے کے وہ عارضی سہولتوں کے پیچھے بھاگتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ایک fact ہے یہ عارضی فائدہ temporary relief ہے اسی طرح ہر وقت فلمیں دیکھنے والا شخص مصیبت آنے پر یک دم سے مسجد کا رخ کرلے گا ، عورت یا نشے کے چکر کا حامل شخص جب ناکام ہوکر کسی پیر کی بیت کرلے گا تو خود کو صوفی یا فقیر سمجھنا شروع کردے گا ، محفل سماع میں عارضی وجد خود پر لاگو کرلے گا ، یہ سب فرار ہیں حقیقت سے ۔۔ اسی طرح کچھ لوگ خود کو شیدید محنت میں غرض کرلیتے ہیں اور workholic ہوجاتے ہیں۔ دن رات کام کرتے ہیں اگر مقصد نیک اور سب کی بھلائی ہو تو بہت اعلی لیکن صرف خود کی زات کے لیے اور مادیت پرستی کے لیے یہ بہت خطرناک نفسیاتی بیماری ہے جو روٹین میں پناہ لیتے ہیں نو سے پانچ کام کرنے والے لوگ۔ یہ لوگ غور و فکر کو دھتکار دیتے ہیں ، صرف اپنی روٹین کو فالو کرتے ہیں ۔ روٹین کا ہونا بری بات نہیں لیکن روٹین کا بچاری کولہو کا بیل کہلاتا ہے ۔اسی موضوع کو لیکر ہم آگے اپنی اقساط میں ان شا اللہ مفصل رہمنائی کریں گے جس سے آپ دیکھیں گے کہ اپ اور میں اس وقت کہاں ہیں !
میں کون ہوں؟ خودی کیا ہے ؟ نفس کیا ہے؟
بنیادی طور پر نفس کے تین حصے ہیں: جسم، پانچ حواس، زہن، ہم بالترتیب تینوں کا مشاہدہ کریں گے۔ جسم ایک رونمائی ہے ۔۔ body is appearance ۔ ہر جاندار کا وجود اس کے جسم کے ساتھ ہے جسم واحد جرثومے singular cell سے بنا ہے ، یہ ایک حیاتیاتی مادہ matter ہے ۔ جسم ایک زندہ چیز نہیں ، پانچ حواس five senses موجود نہ ہوں دماغ کام نہ کررہا ہوتو جسم کی اپنی حثیت ایک مردے کی ہے، جسم کا عقل سے براہ راست کوئی زیادہ تعلق نہیں ، جسم حیوانی ہے اس میں دو خصوصیتیں ہیں ، اول بچاو survival اور دوئم افزائش نسل یعنی reproducation ، جسم صرف بھوک مٹانے اور اپنی پیدوار بڑھانے reproduction میں دلچسبی رکھتا ہے ، باقی کسی معاملے سے ا سے کوئی غرض نہیں ، گو کہ انسانی جسم اپنی بناوٹ اور نفاست کے اعتبار سے تمام حیوانی اجسام میں اعلی وجود رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بنیادی طور پر حیوان اور انسان کے جسم میں حیاتیاتی اعتبار سے کوئی زیادہ فرق نہیں ۔ زندگی اسکی سرشت ہے یہ بذات خود زندگی ہے ، اسے دنیا میں بچنے کیلیے خواراک چاہئے اور یہی اسکی اول ترجیح ہے بھوک مٹانے کے بعد یہ خود کو ابدی eternal کرنا چاہتا ہے لازوال ہونا چاہتا ہے ، اس کے لیے اسکے پاس صرف یہی ایک راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنی نسل کو جنسی عمل سے آگے بڑھائے ، اسکے لیے یہ کسی لذت کا طلبگار نہیں ، لذت pleasure جسم کا نہیں ذہن کا مسئلہ ہے جسم کو تو خود کو آگے بڑھانا ہوتا ہے organism کو deliver کرنا ہے تاکہ زندگی قائم رکھ سکے، یہی اس کی عقل ہے اور اتنا ہی اس کا مقدر ہے ، یہ مٹی سے بنا ہے انسان کو اسی دنیا میں ایک لباس کی صورت میں عطا کیا گیا ہے ، ایک ایسا لباس جو اس انسان کا اپنا نہیں بلکہ اس زمین کا ہے جو موت کے وقت اسی زمین کو واپس کردیا جاتا ہے، جسم نہیں جانتا کہ وہ مردہ ہے یا زندہ اسے کوئی خبر نہیں کہ تکلیف کیا شے ہے ، یہ سب تو اسے ذہن بتاتا ہے اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں فرض کریں کہ ایک آدمی کو میز پر لٹاکر اس سے اسکا نام بیوی کا نام کاروبار تعلیم کا پوچھا جائے ، جواب ملنے پر اس کے دونوں بازو کاٹ دیئے جائیں ، اور پھر وہی سوال کیے جائیں تم کون ہوتو پہلے والا جواب ہی ملے گا ، پھر دوبارہ ٹانگ کان کاٹ کر سوال کیا جائے خواہ دھڑ ہی باقی بچے لیکن جواب وہی پہلے والا ہی ہوگا یعنی تب بھی اس جسم کے بیوی بچے نام کاروبار وہی رہے گا ، اس کا صاف مطلب ہے کہ اس وجود شخصیت کا حصہ ضرور ہے لیکن مکمل شخصیت ہرگز نہیں، پھر وہ کون ہے جو جسم تو نہیں لیکن ہمارا نفس ہے؟ یہ صرف جسم کا وہ حصہ ہے جو تزکیہ نفس کے لیے انسان کو درکار ہے وگرنہ اللہ عزوجل کی حسین ترین مخلوق ہے ، اس کے اندرونی و بیرونی اعضا کی تخلیق کے لیے قیامت تک بھی غور کیاجاتا رہے تو کبھی بھی یہ پتہ نہ چل سکے گا کہ یہ آخر کیا ہے؟ آج سے تقریبا تیس سال پہلے جاکر دیکھیں کہ سائنس اس جسم کوکا کام اتنا نہیں جانتی تھی ، اسکو under estimate کررہی تھی کہ ہربیماری کے لیے ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا تھا ، لیکن پھر انسان کو احساس ہوا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے ہر عضو کی سپیشلائزیشن کا دور شروع ہوا حتی کہ دانتوں کے لیے سات سال کی طبی تعلیم لازم قرار پائی، جتنا اندر اترتے چلے جائیں گے اتنا ہی راز الجھتا جائے گا حتی کہ بات کلوننگ سے بڑھ کر میوٹیشن تک جاپہنچی ہے جسم کو تاقیامت پڑھاجاتا رہے گا۔ اسی طرح حواس کی اپنی ایک الگ دنیا ہے جس کے اسرار ہیں اور اپنے کمالات بھی۔ حواس کو بنیادی طور پر پانچ حصوں پر لیتے ہیں
دیکھنا ۔۔ sight سننا . HEARING، چکھنا ۔۔ taste سونگھنا ۔۔۔ smell محسوس کرنا ، چھونا ،touch یہ جسم یعنی body کے لیے سینسرز sensors کا کام کرتے ہیں ، معلومات اکھٹی کرتے اور دماغ کو پہنچاتے ہیں، ان کا اصل کام جسم اور زہن سے مل کر خواہش کو جنم دینا ہے ، اس پر آگے بات کروں گا ان شا اللہ جو اس کام کو کرنے کے لیے مخصوص اعضا دیے گئے ہیں، بصارت آنکھ کو کیمرے کی طرح استمال کرتی ہے ، سماعت کانوں کے ساتھ جڑی ہے، چکھنے کی حس زبان میں ہے سونگھنے کے لیے ناک استمال ہوتی ہے اور چھونے کی حس پورے وجود کے پور پور میں سمائی ہے ، واضح رہے کہ یہ تعریف طبی نقطہ نگاہ سے نہیں کی گئی کیونکہ اللہ پاک ایک تخلیق ہزاروں لاکھوں مقاصد حاصل کرتا ہے، جیسے ناک صرف سونگھنے کے لیے نہیں بلکہ سانس لینے اور ناکارہ ہیں نکالنے سمیت اسکے بہت سارے کام ہیں، یہاں حواس کا بیان کا مقصد صرف اپنی پہچان ہے ، ہم کل میں سے جز کو الگ کررہے ہیں، تاکہ جو ایک انسان نظر آرہا ہے وہ حقیقت میں کیا ہے ۔ حواس یعنی انسان کی senses کے پاس بھی اپنا ذاتی کوئی علم نہیں ہے
زہن کے بغیر حواس بھی ناکارہ ہیں ، ایک نظر زہن کو بھی دیکھتے ہیں موضوع کی مناسبت سے سردست صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ زہن انسان کے جسم میں یاداشت کا مرکز و محور ہے یہ ڈیٹا سنٹر ہے ، تجزیہ کار analyst ہے یہ تمام جسم اور حواس پر حکمران ہے حواس باہری دنیا کی معلومات اسے مہیا کرتے ہیں اس انفارمیشن کی مدد سے ماضی کے تجربات کو استعمال کرکے ذہن ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے پورے جسم پر ایک فیصلہ کرتا ہے جس کو جسم اور جسم کے تمام حواس ماننے کے پابند ہوتے ہیں یہ جان لینا ضروری ہے کہ زہن mind اور دماغ brain دونوں الگ الگ ہیں مگر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جیسے جسم مادی اور روح غیر مادی ہے اس طرح دماغ مادی اور زہن غیر مادی ہے ، دماغ اعصابی نظام اور بہت سے دوسرے خلیات سے مل کر بنا ہے جن کو دیکھا اور چھوا جاسکت اہے لیکن زہن ایک غیر مادی ہے سوچ ہے ، زہن دماغ کے زریعے تمام جسم انسانی سے جڑا ہوا ہے ، نفس انسان ان تین حصوں سے مل کر بنا ہے
جسم، حواس، اور زہن، یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر ناکارہ ہیں ، کسی ایک کی دوسرے کے بغیر کوئی حیثیت نہیں ہے ، اس اس سوال پر گہرائی سے غور کیا جائے کہ میں کون ہوں تو انسان ورطہ حیرت میں گم ہوجاتا ہے
کیا میں جسم ہوں ؟ کیا میں احساس ہوں ؟ کیا میں زہن ہوں ؟ جب بھی کوئی اندر اتر کر دیکھتا ہے تو پاتا ہے کہ میں یہ سب نہیں ہوں میں ان سب سے اعلیٰ و ارفع ہوں ،میں ایک حقیقت کا منتظر ہوں، میری عزت میرے خیالات، میرے جذبات، علم دنیا، یہ سب کس کا ہے؟ کیا عزت میرے جسم کی ہے ؟ احساس کی یا پھر میرے زہن کی ؟٭٭٭