ہم نے گزشتہ کالم کو ساحر لدھانوی کی انقلابی نظم وہ صبح کبھی تو آئیگی سے معنون کرتے ہوئے وطن عزیز میں انسانیت، آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اُڑانے پر اپنے احساسات و تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ظلم وبربریت اور انسانیت سوزی کا یہ سلسلہ اب اس حد تک دراز ہو چکا ہے کہ بُُُُغض عمرانیہ میں مائوں، بہنوں، بیٹیوں کو بھی اقتدار کے بھوکے اور خود مختار ظلم و ستم اور قید و بند کے ہر اس حربے کو اختیار کرنے پر کمر بستہ ہیں جو ہر مذہب، انسانی قدر اور تہذیب کے منافی ہی نہیں قابل مذمت و نفرت بھی ہے۔ شو مئی قسمت کہ وطن میں خواتین خصوصاً عمران کی حامی صنف نازک سے موجودہ فیصلہ سازوں اور ان کے ہرکاروں و گماشتوں کے اقدامات و سلوک پر ساحر لدھیانوی کی ایک اور معرکة الآرا نظم حوا کی بیٹی ہمارا حوالہ بن رہی ہے۔ یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ عمران دشمنی کے تحت گزشتہ 10 ماہ سے عمران کے وفاداروں، ساتھیوں اور حمایتیوں کیخلاف ریاستی اشرافیہ کی منشاء اور مرضی کے مطابق خواتین سمیت پی ٹی آئی کو تختۂ مشق بنانے اور انسانیت کیخلاف کٹھ پتلی انتظامی و سیکورٹی کی حرکات و چیرہ دستیاں اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ جن کے سبب خود ان کی اپنی بیویاں، بہنیں، بیٹیاں بھی ان سے گِھن کھانے لگی ہونگی کہ جو ذمہ دار محکوم و مجبور خواتین کیساتھ غیر انسانی کردار کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ اپنے آقائوں کے اشارے پر اپنی عزتوں کا بھی خیال کر پائینگے، جوغیر کی بیوی، بیٹی، بہن کیساتھ مقتدروں کی مرضی پر اپنی عزت نفس کو ختم کر سکتے ہیں، وہ حکم حاکم مرگ مفادات کے تحت وقت پڑنے پر اپنی غیرت و عزت کیا بچا پائیں گے اور کیا ایسے لوگ مردانگی کے زمرے میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ ہماری یہ تحریر خدیجہ شاہ کیساتھ ریاستی اشرافیہ اور حکومتی و سیکورٹی کے، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس باقر نجفی کے واضح رہائی کے حکم کے باوجود غیر قانونی، منفی اور عدالت عالیہ کے احکامات کے برخلاف ڈپٹی کمشنر لاہور کے ایم پی او کے تحت آرڈر کے بموجب تھانہ بجلی گھرمیں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار کر کے جعلی طریقے سے مقامی عدالت سے راہداری وارنٹ لے کر اسے متذکرہ مقدمے کی بنیاد پر بلوچستان پہنچا دیا گیا ہے (واضح رہے کہ اس مقدمے میں عمران کے وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں) یہ بھی واضح رہے کہ خدیجہ شاہ 9 مئی کے مبینہ واقعات کے الزام میں گزشتہ چھ سات ماہ سے پابند سلاسل ہے اور ایک مقدمے سے ضمانت ملے تو اسے دوسرے کیس میں گرفتار کرنے کا تسلسل جاری ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود جعلی طریقے سے خدیجہ شاہ کی پھر گرفتاری نہ صرف لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے اور قانون کی دھجیاں اُڑانا ہے بلکہ پاکستان کے کسی بھی آئینی یا قانونی حوالے سے بھی اس کی گنجائش نہیں بنتی کہ خواتین، بچوں، بزرگوں کیساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔ پاکستان تو کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی بچوں، بزرگوں، خواتین یہاں تک کہ درختوں، مذہبی و طبی اداروں کو ماورا قرار دیا جاتا ہے ماسوا کہ خواتین اور بزرگوں پر بغاوت یا غداری کا الزام ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت کی دعویداری کرنیوالی ریاست، اس کے انتظامی، قانونی و سیکیورٹی ادارے آخر کس وجہ سے خواتین پر غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی و قانونی حرکات پر اُترے ہوئے ہیں۔ خدیجہ شاہ، صنم جاوید، ڈاکٹر یاسمین راشد اور سینکڑوں پی ٹی آئی کے خواتین و بچیوں پر ظلم و ستم اور غیر انسانی حرکات پر کمر بستہ ہیں کہ وہ عمران کیساتھ کھڑی ہیں اور شہریار آفریدی یا شندانہ گلزار یا پی ٹی آئی کے منحرفین کی طرح عمران مخالف بیان یا اسے چھوڑنے پر راضی نہیں۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے برعکس اصل حکمرانوں کی ناراضگی اور ہٹ دھرمی کے خوف سے بیوروکریٹس، ماتحت عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اور دیگر ذمہ داران خواتین پر جعلی و غیر قانونی اقدامات پر خاموشی کی مہر لگائے ہوئے محض ہیجڑا نظام کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اس کھیل میں عبوری حکومتیں بھی ماورا نہیں کہ ریاست کے خوف اور عمران مخالف ذاتی عناد کے سبب وہ بھی اسی ہیجڑا نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
ہمارا سوال ان اصل حکمرانوں اور پاکستان کے نام نہاد سیاسی و جمہوری رہنمائوں سے خصوصاً خواتین کے حوالے سے اس دو رُخی پالیسی بلکہ منافقانہ فطرت پر ہے کہ عافیہ صدیقی پر امریکی مظالم قید و بند، کشمیر و بھارت اور اسرائیل میں خصوصاً مسلم خواتین پر مظالم، قتال اور انسانیت سوز سلوک پر تو سخت احتجاج، مذمت کا اظہار کیا جاتا ہے، عالمی فورمز پر آواز بلند کی جاتی ہے لیکن خود اپنے وطن میں خواتین کیساتھ محض اس بناء پر کہ وہ عمران اور جمہوری آزادی و حقوق کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں مظالم و قانون شکنی کے وہ پہاڑ توڑے جاتے ہیں جن کی دنیا بھر میں اور کسی مذہب یا معاشرت میں نظیر نہیں ملتی۔ خدا کا خوف تو شاید ان حکمرانوں کی سرشت میں نظر نہیں آتا جنہوں نے ذاتی عناد کو قومی مفاد پر اپنی ترجیح بنایا ہوا ہے اور ان کی منشاء کے مطابق سارا نظام ہیجڑا نظر آتا ہے لیکن کیا ہماری عدالت عظمیٰ خصوصاً چیف جسٹس اور عدالت عالیہ بھی خواتین کیساتھ نا انصافیوں اور قانون و عدلیہ کے فیصلوں کی دھجیاں بکھیرنے پر خاموش ہی رہیں گے۔ اگر حالات یونہی رہتے ہیں تو ہمیں ساحر کی زبان میں یہی کہنا پڑے گا!
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی
پیمبر کی اُمت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
٭٭٭