اس خاکدان گیتی میں نہ جانے کتنے لوگ آئے اور چلے گئے، اسی طرح لوگ آتے رہیں گے اور ایک متعین مدت تک زندگی کے شب و روز گزار کر دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوجائیں گے۔ یہ سلسلہ جاری تھا، جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔ جب ایک انسان دنیا سے سب کچھ چھوڑ کر جاتا ہے تو اس کے خویش واقربا فطرت انسانی کے مطابق تڑپتے، آہوفغاں کرتے اور آنسو بہاتے ہیں مگر چند ہی روز! کیوں کہ پھر جلد ہی صبر تسکین کی چادر اوڑھا کر انہیں مطمئن کر دیتا ہے کہ یہ دنیا ہے اور یہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور تا قیامت یونہی ہوتا رہے گا۔ ڈاکٹر اقبال نے بڑے انوکھے انداز سے زندگی اور موت کا فلسفہ ڈیل کے دو مصرعوں میں بیان کیا ہے۔
زندگی کیا ہے عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
احادیث سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ جب رب نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں کو مطلع کیا۔ فرشتوں نے عرض کیا خداوند!! تو بنی نوع انسان کو پیدا فرمائے گا تو پھر دنیا ان کی کثرت تعداد سے تنگ ہوجائے گی۔ رب نے فرمایا میں موت کو پیدا کر دوں گا۔ پھر فرشتوں نے عرض کیا باری تعالیٰ ! پھر تو موت کے بھیانک خوف سے لوگوں کی زندگی اجیرن بن جائے گی اور وہ جینا نہیں چاہیں گے۔ رب نے فرمایا کہ میں ان میں اُمید کو پیدا کر دوں گا۔ بات کچھ ایسی ہی ہے کہ ہر انسان جانتا اور خوب جانتا ہے کہ مجھے ایک دن موت کا کاکڑوا گھونٹ پینا ہے، قبر کی کالی کوٹھری میں منوں مٹی کے اندر جاتا ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے ساتھ دنیا کی کوئی نہیں جائے گی۔تنہا آیا تھا اور تنہا ہی جائے گا۔ دنیا کی تمام چیزیں خواہ بینک بیلنس ہو یا پر شکوہ عمارت، زوجہ و اولاد ہوں یا اعزہ واحباب یہ سب کے سب یہیں رہ جائیں گے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں!
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان یہ سب کچھ جان بوجھ کر پھر کفرو سرکشی کیوں کتا ہے، گناہ کی عادت کیوں ڈال دیتا ہے۔ظلم واستبداد کا خوگر کیوں بن جاتا ہے، حقوق کی پامالی اس کا شیوہ کیوں بن جاتی ہے؟ قتل وغارت گری کو اپنا پیشہ کیوں بنا لیتا ہے وہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے انسانیت کا بڑی بے دردی سے خون کیوں کردیتا ہے، بڑی ڈھٹائی کے ساتھ شرافت ونجابت کی دھجیاں کیوں بکھیر دیتا ہے۔ تہذیبی معیار واخلاقی اقدار کو پس پشت کیوں ڈال دیتا ہے، اپنے سوئے عمل سے بار بار خدائے قہار کے قہر عذاب کو دعوت کیوں دیتا ہے۔
٭٭٭