بھارتی دارالخلافہ دہلی کے موجودہ وزیراعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ 55سالہ سابقہ بیوروکریٹ اروندگجریوال2015سے آج تک دہلی کے حکمران چلے آرہے ہیں جن کا دائرہ کار پنجاب تک پہنچ چکا ہے جنہوں نے اپنی حکومت میں عوام وہ کام کیے ہیں کہ جس کا پورے بھارت میں چرچا جاری ہے جن کا کوئی جنرل اور کرنل حمائتی نہیں ہے نا ہی کوئی اندرونی اور بیرونی طاقت حمایت کر رہی ہے۔ یا کسی سازش میں ملوث ہے جو صرف اور صرف جمہوریت کا پھل ہے ورنہ بھارت میں گجریوال، ملائم سنگھ، مایاوتی، لالوپرشاد یا پھر کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار کی زندگی بھر بھارت کے حکمران نہ بن پائے کہ آج بھارتی غریب دلت اور پسماندہ طبقہ جمہوریت کی بدولت صدیوں کے غاصبانہ اور استحصالی طبقات سے اپنے ووٹوں سے بدلہ لے رہا ہے۔ پاکستان میں صرف اور صرف ایک نعرہ تھا کہ جمہوریت سب سے بڑا بدلہ ہے جبکہ پاکستان میں آج تک چوروں، ڈاکوئوں، رسہ گیروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور گماشتہ سرمایہ داروں کے علاوہ کوئی بھی شخص حکمران نہ بن پایا جن کے یہ پیچھے جنرل کریسی ہمیشہ چھپی ہوئی ہوتی جو کبھی عمران خان اور کبھی نگرانوں اور کبھی نوازوں اور زرداریوںکی شکل میں پائی جاتی ہے تاہم پاکستان میں بھی گجریوال کے طبقے مڈل کلاس سے ایک شخص الطاف حسین 80کی دہائی میں کراچی میں عوام کے سامنے آیا جن کی حمایت میں عام غریب، ریڑھی والا، مزدور، محنت کش اور آفس کلرک باہر نکلا چھابڑی والا، جھونپڑی والا جو واقعی ہی متاثرہ طبقہ تھا جو یہ سمجھ بیٹھا کہ الطاف حسین ایک عام آدمی ہے۔80گز کے مکان میں رہائش پذیر ہے۔ فیڈرل بی ایریا کلرکوں کی وادی میں رہتا ہے جوکہ کراچی کا دل سمجھا جاتا تھا یہاں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس لوگ آباد ہیں۔ کہ وہ ہمارے حقیقی مسائل حل کر پائے گا مگر ہو الٹا کہ الطاف بھائی کے پیچھے جنرلوں کا ٹولہ تھا۔ جو انہیں سیاسی کلچر کو ختم کرنے اور سیاست کے گھڑ کراچی کو برباد کرنے کے درپے میں تھے جنہوں نے ظاہراً الطاف حسین اپنی مخالفت بھی کرائی مگر اندرون کھاتہ ان کی مکمل مدد کی کہ یہاں تک ڈرگ کالونی میں پنچابیوں کی خواتین کی بے حرمتی پر بھی ملیر کینٹ کی فوج خاموش رہی جس سے پورا شہر کراچی خانہ جنگی میں مبتلا ہوگیا۔ مزدوروں، محنت کشوں اور غریب پرودوں کا بہتر لسانی، نسلی، مذہبی منافرتوں کا شکار ہوگیا۔ اہلیان کراچی ایک دوسرے کے محلوں، گلیوں اور سڑکوں پر اجنبی بن گئے ہوں گھر سے لاشیں اٹھنے لگیں۔ہزاروں لوگ مارے گئے جو1947کی تقسیم ہند کے بعد دوسری قتل عام تھی کہ جس میں اہلیان کراچی ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے تھے۔ پورا کراچی نفرتوں، حقارتوں اور قاتلوں کا شہر بن گیا حالانکہ الطاف حسین چاہتے تو وہ بھی اروندگجریوال کی طرح کراچی کو ایک مثالی شہر بنا سکتے تھے۔ جس کی سیاسی، اور سماجی روایات برقرار رہتی۔ ملک کا متوسط طبقہ آج پاکستان کا حکمران بنا ہوتا مگر ایسا نہ ہوا۔ ایک مڈل کلاس کے شخص نے ایک بھارتی مڈل کلاس، گجریوال کی پیروی کرنے کی بجائے بندوق اٹھانے پر ترجیح دی جس سے غریبوں، محنت کشوں، مزدوروں کا شہر کراچی خون میں لت پت ہوگیا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کہ آج وہ کراچی شہر جو کبھی سیاست کا گھڑ کہلا تھا یہاں بڑے بڑے سیاستدان معراج محمد خان، علی خان، علی مختار رضوی، پروفیسر غفور، مولانا نورانی اور مزدور لیڈر عثمان بلوچ جیسے اشخصاص پیدا ہوئے تھے۔ یہاں سے ملکی سیاست کے فیصلے ہوا کرتے تھے وہ آج لاوارثوں کا شہر بن چکا ہے۔ جس پر فیصلے باہر سے ہوتے ہیں۔ جو آج بھی پورے ملک کو پال رہا ہے جس کے آج کے حکمران سندھ کے وڈیرے عیش و عشرت کر رہے ہیں۔ جن کا سر کراچی اور ٹانگیں گائوں میں ہوتی ہے جس سے کراچی کے غریب مزدور محنت کش کا استحصال جاری ہے جبکہ وہ گائوں میں ہاری کو مار رہا ہے۔ جس کے سانپ کی طرح دو منہ ہیں جو اس سانپ کی طرح شہر اور گائوں دونوں جگہوں پر غریب بے بس اور بے اختیار عوام کا سیاسی، معاشی اور مالی قتل کر رہا ہے۔ بہرحال الطاف حسین اور گجریوال میں موازنا کیا جائے تو جن کے حالات زندگی ایک جیسی ہے دونوں کا تعلق مڈل کلاس ہے۔ مگر گجریوال نے دہلی کے مختلف نسلوں لسانوں، مذہبوں کے عوام کو متحد کرکے ایک چھوٹا سا انقلاب برپا کیا جبکہ الطاف حسین نے کراچی کے غریبوں بے کسوں، اور بیچاروں کو تقسیم کیا۔ جس سے اہلیان کراچی نے آپس میں لڑایا کے آج ہر لحاظ سے بے سہارا ہوچکے ہیں۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جن کی آمدن سے پورا ملک پل رہا ہے مگر کراچی والا بھوکا مر رہا ہے۔ جس کا ذمہ دار الطاف حسین ہے جو چاہتے تو نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک کو جنت بنا دیتے مگر ایسا نہ ہوا اب شاید کوئی دوسرا مڈل کلاس پیدا نہ ہوگا جو گجریوال کی طرح عوام کا خیرخواہ بن پائے گا۔
٭٭٭٭