شازیہ عالم شازیہ: محبت کی دیوی!!!

0
66

یونانی دیومالائی داستانوں میں ڈیانا ( Diana) کو چاند کی دیوی کہا جاتا ہے جس کی کرنیں محبت کی وادی کو منور کرتی ہیں۔ شاعروں نے روئے محبوب کو چاند سے تشبیہ دی ہے اور چاندنی راتوں کا ذکر کیا ہے۔ شازیہ عالم شازی اپنی ذات میں وہ چاند ہیں جو محبت کی راہوں میں چاندنی بکھیرتی ہیں۔ آپ دو آتشہ ہیں۔ چاند کی دیوی اور محبت کی دیوی۔ آپ کی شاعری کا محور محبت ہے۔ بقولِ حافظ شیرازی!
خلل پذیر بود ہر بِنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است
آپ کی شاعری کا تازہ مجموعہ زیرِ اشاعت ہے جو اہلِ دانش و بینش کے لیے تحف ادبیات ہو گا۔شاعری کا سرچشمہ جذبات و احساسات ہیں۔ یہ آتشِ دروں بھی ہے اور احساسِ بروں بھی۔ رومانوی بھی ہے اور انقلابی بھی۔ غمِ ہجراں بھی ہے اور غمِ دوراں بھی۔ بقولِ ساحر لدھیانوی !
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے مجھ کو وہ لوٹا رہا ہوں میں
جب شاعر اوجِ احساس اور معراجِ شعور حاصل کر لیتا ہے تو اس کی شاعری غمِ انساں کا روپ دھار لیتی ہے۔ بقولِ فیض احمد فیض!
کرے نہ جگ میں الا تو شعر کس مصرف
کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم کیاہے
شازیہ شازی کی شاعری میں شدتِ جذبات کے جلو میں انسان دوستی کاجذبہ بھی نمایاں ہے۔ ان کی ایک غزل کے یہ دو شعر دو آتشہ ہیں!
چھوڑ کر جو گیا تھا کبھی، آج وہ
ہر کسی سے پتا پوچھتا ہے مرا
فرق رکھتی نہیں اپنے اور غیر میں
ہر کسی کے لیے دل بڑا ہے مرا
شازیہ شازی محبت کے الا میں جل کر بھسم ہو چکی ہیں۔ دنیا میں کئی شاعرات ہیں لیکن جو آتشِ جنوں میں جل کر خاکستر ہوئیں ان میں کشمیر کی حبہ خاتون، ایران کی فروغِ فرخ زاد، یونان کی صوفیہ، انگلستان کی ایملی برانٹے اور پاکستان کی پروین شاکر ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں گی۔ یہ ذاتی تجربہ ہو یا آفاقی تجربہ۔ ہر دو صورت میں یہ احساسِ محبت اپنے باطن میں شدت و حدت لیے ہوئے ہے۔ کہتی ہیں!
فقط اک پل نہیں یہ عمر بھر دشوار ہوتا ہے
کسی کے غم میں جینا کس قدر دشوار ہوتا ہے
کسی کا ہجر سہنا اِس طرح دشوار ہے شازی
کہ چلنا جس طرح سے آگ پر دشوار ہوتا ہے
پلِ صراط پر سے گذرنا کارے دارد، مگر غمِ فراق بھی کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ انگاروں پر قدم زدنی کے مترادف ہے۔ شازیہ شازی بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں۔لیکن ان کی نظمیں بھی اسلوب و معانی کے اعتبار سے چونکا دیتی ہیں۔اِن میں داستانِ دل بھی ہے اور غمِ جہاں بھی۔ ایک نظم اداس منظر میں انگریز شاعرِ فطرت William Wordsworth کی طرح فطرت کے حسن سے سرشار بھی ہوتی ہیں لیکن نظم کے اختتام پر سوزِ دروں کا اظہار یوں کرتی ہیں!
سچ بتاں تو یہ حسیں منظر
اب مرا دل اداس کرتے ہیں
یہ اداسی دائمی ہوتی ہے۔ انگریزی ادب میں اس شاعرانہ کیفیت کو( Melancholia) کہتے ہیں۔ یہ وہ غم کی کیفیت ہے جو ہر ذی شعور اور حساس انسان کو فطرت ودیعت کرتی ہے۔ شاعر چونکہ بہت حساس طبع ہوتا ہے تو بقولِ امیر مینائی !
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
شازیہ شازی پر محبت کے سحر کا اثر اس قدر ہے کہ وہ سراپا پیکرِ فغاں ہیں اور کہتی ہیں!
کہاں تک یہ آنسو چھپاتے رہو گے
بظاہر جو تم مسکراتے رہو گے
بچھڑ جا لیکن خیالوں میں مجھ سے
یہ وعدہ کرو آتے جاتے رہو گے
یہ خالص محبت کااظہار ہے۔ اس زمانے میں ہر شے ناخالص ملتی ہے۔ غذا ناخالص۔ دوا ناخالص۔ وفا ناخالص۔ایسے میں اگر خالص محبت اور خالص شاعری شازیہ شازی سے مِل جائے تو اسے معجزہ جانیئے۔ کون کہتا ہے آج معجزے نہیں ہوتے؟ میں اس بات کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں کہ چند ماہ قبل شازیہ شازی اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی سے اسلام آباد آئیں تو مجھے بھی ملنے میرے گھر تشریف لائیں۔ میں نے انہیں نہایت مہذب و سلیقہ شعار پایا۔آپ کا ادبی ذوق قابلِ صد ستائیش ہے۔ آپ ایک اچھی شاعرہ کے علاوہ اچھی انسان بھی ہیں جو ادبی خدمت کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت میں بھی ہمہ تن مگن ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here