دستِ سوال !!!

0
41
رعنا کوثر
رعنا کوثر

دستِ سوال !!!

حضرت زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، تم میں کسی ضرورت مند آدمی کا رویہ کے وہ رسی لے کر جنگل میں جائے اور دو لکڑیوں کا یک گٹھا اپنی کمر پہ لاد لائے اور پیچھے اور اس طرح اللہ کی توفیق سے وہ سوال کی ذلت سے اپنے کو بچا لے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سوالی کا ہاتھ پھیلائے خواہ وہ اس کو دیں نہ دیں۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک مفلس شخص رسول اللہۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حاجت مندی ظاہر کرکے آپ سے کچھ مانگا آپ نے فرمایا کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ ان نے عرض کیا بس ایک کمبل ہے اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں آپ نے فرمایا یہ دو چیزیں میرے پاس ہے آئو انہوں نے وہ دونوں آپ کو دے دیں آپ نے وہ کمبل اور پیالہ ہاتھ میں لیا اور خاظرین سے فرمایا کون ان دونوں چیزوں کو خریدے گا۔ ایک صاحب نے دو درہم میں لے لیا۔ اور ان صاحب سے کہا ایک درہم کا تم گھر والوں کے لئے سامان لو اور ایک درہم کی کلہاڑی اور جنگل میں جاکر لکڑیاں ضرور کاٹو اور بیچ کر پیسہ کمائو۔ اور دو ہفتے بعد آنا دو ہفتے بعد وہ صاحب دس درہم لائے۔ یہ ان کی محنت کی کمائی تھی آپۖ نے فرمایا اپنی محنت سے کھانا تمہارے لئے بہتر ہے کہ قیامت میں مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پہ ہو۔ آپ نے فرمایا مانگنا ان کے لئے ہے جس کو فقر وفا نہ نے زمین سے لگا دیا ہو اور بالکل لاچار ہو اور دوسرے جس پر قرض کا بہت بوجھ ہو۔ یا پھر کسی کو خون بہا دینا ہو افسوس جس پیغمبر کی یہ ہدایات تھیں اس کی امت میں پیشہ ور بھکاری اور گداگر نظر آتے ہیں کسی اور ملک میں اتنے بھکاری نظر نہیں آتے۔ جتنے پاکستان بنگلہ دیش مصر اور وغیرہ میں نظر آتے ہیں۔ بازاروں میں نکل جائو تو بھکاری پیچھے پھرتے نظر آتے ہیں اسی طرح دھوکے سے پیسے وصول کرنے والے بھی بے شمار ہیں۔ پیر بھی بعض اوقات گداگری کرتے ہیں پیروں کے آستانے پر بے حد گداگر نظر آتے ہیں۔ لوگوں کا مزاروں کے اندر جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ گداگر گھیر لیتے ہیں جس نے مصر میں دیکھا چھوٹے بچے سیاحوں کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں پیسہ لینے کے لئے اب تو امریکہ میں بھی کئی مسجدوں کے آگے گداگر عورتیں اور مرد نظر آتے ہیں۔ اب یہ تو نہیں معلوم کے ان میں سے کتنے لوگ حقیقت میں مانگنے کے اہل ہیں یا نہیں لیکن افسوس یہ ہے کے ان کے آڑ میں اچھے امیر لوگ بھی اپنا کاروبار چمکا رہے ہوتے ہیں۔ لالچ انسان کو اندھا کرتا ہے اور لاعلمی انسان کو جاہل، ان جاہلوں کو پتہ ہی نہیں کے آپۖ نے مانگنے کو کتنا برا کہا ہے مانگنے والا جتنا بھی امیر بنے اُسے ذلت ہی ملے گی۔
آپۖ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر والا ہاتھ دینے والا ہے نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے۔ کاش کے بچپن سے ہی لوگ بچوں کو مانگنے کی تربیت نہ دیں۔ مانگنا صرف بھکاریوں کا ہی کام نہیں ہے بہت سارے لوگ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کے وہ اپنے رشتہ داروں سے مانگیں کیونکہ ان کے پاس پیسہ ہے اور ان کے پاس نہیں ہے۔ مگر مانگنے اور سوال کرنے سے ذلت ہی ملتی ہے اس لئے اصول بنا لیں مانگنا ہی نہیں ہے۔ ہاں کوئی خود محبت اور پیار سے دے تو پھر ضرور وصول کریں۔
بہرحال یہ اصول اور قوانین اپنانے سے ملک سے گداگری ختم ہوسکتی ہے بہت ہی کم بے حد غریب ہیں جو مانگتے ہیں ان کا مانگنا جائز ہے باقی لوگوں کا مانگنا جائز نہیں اس لئے دستِ سوال دراز کرنے والوں کو آنکھ بند کرکے اپنی محنت کی کمائی سے محض ثواب کی نیت سے نہ دیں بلکہ ان کو جائز کمانے کی ترغیب دیں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here