آج ہم اپنا کالم حضرت علی کے اس قول سے شروع کر رہے ہیں، ”جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو”۔ یہ قول افغانیوں اور افغانستان کے حکمرانوں پر صادق آتا ہے، یہ حقیقت آج کی نہیں برسوں بلکہ صدی سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے، ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں افغان حکومتوں اور لوگوں کے منفی اور خود غرضانہ رویوں و پاکستان مخالف خصوصاً بھارت کیساتھ مل کر سازشوں کے حوالے سے سازشی کردار نیز حالیہ صورتحال کے پیش نظر دوحہ مذاکرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ قطر مذاکرات کا پہلا رائونڈ ہوا، قطری ثالث کی جانب سے تفصیلی قرارداد آئی، سارے میڈیا کے توسط سے قارئین اس سے آگاہ بھی ہوئے لیکن کتے کی دُم بارہ برس دبا کر رکھو، پھر بھی ٹیڑھی کے مصداق افغان طالبان رجیم نے اپنی بُری خصلت کے مطابق قرارداد کے مندرجات سے لفظ ”بارڈر” حذف کرا دیا، افغان وفد کے سربراہ اور وزیر دفاع ملا یعقوب نے لفظ بارڈر پر اعتراض کیا، افغان ویب سائٹ سے جاری قرارداد سے دونوں ممالک کے بارڈرز کی لائن نہ صرف ہٹا دی گئی بلکہ ڈپٹی وزیر سرحدی امور محمد نبی نے زہر اُگلتے ہوئے سرحدوں کا انکار کر کے ڈیورنڈ لائن کے خاتمے کی دھمکی دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے فتویٰ دیا تو بھارت کی سرحد تک پاکستان کو کوئی جگہ نہیں ملے گی، سوال یہ ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان کے ہاتھوں اپنی شامت کے رد عمل پر سیز فائر اور مذاکرات کی درخواست کی اور قطر و ترکیہ کی ثالثی پر ہونے والے مذاکرات اور پہلے دور کے اس اعلامیہ یا معاہدے کے مندرجات سے افغان رجیم کے منکر ہونے پر قطر و ترکیہ کی جانب سے کوئی رد عمل کیوں نہیں آیا جبکہ یہ اعلامیہ قطری وزارت خارجہ نے جاری کیا تھا۔ ہمیں تو 25 تاریخ کو استنبول میں ہونے والے دوسرے دور پر تحفظات ہیں کیونکہ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے 2021ء میں امریکہ کے واپس جانے کے معاہدے پر اپنی سرزمین کو دہشتگردوں و دہشتگردی کے استعمال نہ کرنے کا میثاق کیا تھا لیکن آج دنیا بھر کی دہشتگرد تنظیمیں افغانستان میں سرگرم و متحرک اور فعال ہیں۔ ٹی ٹی پی، پی ایل اے، داعش سمیت دنیا کی متعدد تنظیمیں اپنی سرگرمیوں سے خصوصاً جنوبی ایشیائ، وسطی ایشیاء و دیگر پڑوسیوں کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان کیخلاف ٹی ٹی پی، بی ایل اے و دیگر دشمن قوتوں کیخلاف افغان طالبان ہی نہیں پچھلی حکومتیں بھی خواہ کرزئی حکومت ہو یا اشرف غنی کی حکومت، دہشتگردوں کیساتھ را اور دیگر پاکستان دشمن ایجنسیوں کی معاونت کرتی بلکہ سہولت کاری بھی کرتی رہی ہیں۔ بھارت کے غرور اور برتری کی سوچ کے پاکستان کے ہاتھوں ملیا میٹ ہو جانے اور عالمی تنہائی کے تناظر میں صرف پاکستان دشمنی میں افغان رجیم بھارتی ہندوتوا حکومت کی غلامی پر اُتر آیا ہے اور خود کو دین مبین کے داعی کہنے والے محض پاکستان دشمنی میں بھارتی سازشوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ خود کو مسلمان گرداننے والوں کو یہ شرم نہیں آتی کہ وہ اکھنڈ بھارت کے دعویدار اور مسلم و دیگر اقلیتوں کے قاتل کفار سے تعاون کر کے جہنم کے کنڈے بن رہے ہیں۔
بھارت کا دورہ کرنیو الے افغان وزیر خارجہ متقی کے حوالے اور پاکستان دشمنی میں مودی حکومت کی نوازشوں اور سازشی اقدامات کے بارے تو ہم گزشتہ کالم میں اظہار کر چکے ہیں، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت جس نے افغان عبوری حکومت کو اب تک تسلیم بھی نہیں کیا ہے صرف پاکستان دشمنی میں افغان رجیم کو نہ صرف اسلحہ و نقدی سے نواز رہا ہے بلکہ11 افغان صوبوں میں 24 قونصل خانے کھولنے کے علاوہ آبی دشمنی کے تناظر میں دریائے کابل و دیگر ملحقہ دریائوں پر بند (ڈیم) بنانے کیلئے تین ارب ڈالر دے رہا ہے، ؛مقصد یہ ہے کہ جس طرح بھارت ہمارے مشرقی علاقوں پر آبی غنڈہ گردی کر رہا ہے افغانستان مغربی علاقوں نوشہرہ و دیگر شہروں کیلئے افتاد برپا کرے پانی کی بندش یا سیلاب کی صورت میں۔
قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغان حکمران بشمول موجودہ اسلام کے دعویدار افغان رجیم ہوں یا عوام کبھی بھی پاکستان سے مخلص یا ملتفت نہیں رہے، پچاس برسوں سے پالنے والے پاکستان کیخلاف ہر شعبے میں حتیٰ کہ کھیل میں بھی ان کی نفرت بہت واضح ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمیں تسلیم کرنیو الا آخری ملک افغانستان ہی تھا، روس و امریکہ کیخلاف سپورٹ کیلئے پاکستان کا تعاون بھی افغانیوں کو بردار قرار دینے کی غلطی اور افغانیوں کی خود غرضی کے سواء کچھ نہیں تھا جس کا خمیازہ ہم آج بھی دہشتگردی اور اپنے پیاروں کی شہادتوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ان احسان فراموشوں اور خود غرضوں کو دوستی اور مذاکرات سے سیدھا نہیں کیا جا سکتا، ان کا علاج بزور بازو و قوت ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور افغان رجیم کو جوابی طاقت سے ہی سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ برادر کہنے سے یہ اور شیر ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭














