محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے آج زندگی کے اس اہم ترین پہلو پر قلم اٹھایا ہے جہاں انسان اپنی زندگی کے مقصد کا حصول چاھتا ہے اور کامیاب ہونا چاھتا ہے لیکن کیا سہولتیں انسانی زندگی میں اس کو انکا عادی بناڈالتی ہیں یا انسان کے ارتقا کیلئے ضروری ہے ا سکو باعمل رکھا جائے ایک عجیب و غریب تجربہ میرے بھاء نوری صاحب نے شیئر کیا اسکو نقل کررہا ہوں آپ پڑھیئے اس کے بعد اس موضوع پر بحث ہوگی ۔ اگر کسی مخلوق کو ہر سہولت دے دی جائے وافر خوراک، محفوظ رہائش، سکون، اور کوئی خطرہ نہ ہو تو کیا وہ ہمیشہ خوش و خرم اور ترقی یافتہ رہے گی؟ یہ سوال حیاتیات کے ایک امریکی ماہر جان کلہون نے 1970 میں چوہوں پر ایک چونکا دینے والا تجربہ کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ کلہون نے ایک مثالی ماحول تخلیق کیا، کھانے پینے کی کمی نہیں، رہائش وسیع، دشمن کوئی نہیں۔ وہاں صرف چار جوڑے چوہوں کو چھوڑا۔ کچھ ہی عرصے میں ان کی آبادی تیزی سے بڑھی۔ امن، آرام اور سہولتوں سے بھرپور “جنت” میں ہر چیز مکمل تھی مگر پھر کچھ عجیب ہونے لگا۔ 315 دن بعد افزائش کی شرح کم ہونے لگی، سماجی ڈھانچہ بگڑنے لگا، چوہوں میں تشدد، گوشہ نشینی، ذہنی بیماری، بچوں کو چھوڑ دینا، اور حتی کہ ایک دوسرے کو کھانا جیسے رویے پیدا ہونے لگے۔ کچھ چوہے مکمل بے مقصد زندگی گزارنے لگے نہ لڑائیاں، نہ تعلقات، نہ افزائش نسل صرف کھاتے، سوتے، اور وقت گزارتے۔ اور پھر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ مثالی دنیا تباہ ہو گئی۔ کسی نے حملہ نہیں کیا، کوئی آفت نہیں آئی، کوئی کمی نہیں ہوئی بس جینے کا مقصد ختم ہو گیا۔ آخری چوہا 2 سال بعد پیدا ہوا اور پھر موت کے سوا کچھ نہ بچا۔ یہ تجربہ 25 مرتبہ دہرایا گیا، اور ہر بار نتیجہ وہی تھا: سہولت زدہ معاشرہ، بغیر مقصد کے زندگی، اور پھر مکمل تباہی۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا صرف سہولتیں، آسائشیں، اور تحفظ ہی انسان یا معاشرہ کی کامیابی کی ضمانت ہیں؟ یا ہمیں جینے کے لیے ایک “مقصد”، ایک “جدوجہد”، اور کچھ چیلنجز درکار ہوتے ہیں؟ اللہ تعالی فرماتا ہے اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق کشادہ کر دیتا، تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرنے لگتے، لیکن وہ ایک اندازے کے ساتھ (یعنی جتنا مناسب ہو) نازل فرماتا ہے، جیسا وہ چاہتا ہے۔” [سور الشور: 27] دنیا ایک جائے عمل ہے یہاں کا عمل آخرت میں کام آئیگا اور دنیا کی زندگی بھی اس عمل کی ہی مرہون منت ہے ایک عجیب انسان دوست واقعہ آپکی نظر کرتا ہوں پڑھ کر امید ہے کہ آپکو وہی خوشی کی ملی جلی کیفیت ہوگی جو مجھے ہوء ہے ایسا پہلے کبھی نہیں پڑھا عجیب منفرد واقعہ ہے جو آپکو ایسا عمل کرنے پر مجبور کردیگا ۔ کبھی کبھی ایسا کرلیا کریں… تنخواہ لے کر گھر پہنچتے ہی فوڈ پانڈا والوں کو فون کرکے انہیں ایک چکن بروسٹ، ایک منرل واٹر اور ایک سافٹ ڈرنک کا آرڈر بک کرایا اور ڈیلیوری کا انتظار کرنے لگا کچھ دیر بعد ہی کوئی 21/22 سال کا ایک پیارا سا نوجوان رائیڈر میرے دروازے پر پارسل کے ساتھ موجود تھا رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا بیٹا کہاں تک پڑھے ہو؟ اس نے بتایا کہ وہ بی اے پاس ھے، میرے مزید کریدنے پر بولا کہ اس کے والد فوت ہوچکے ہیں، خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر آن پڑی ھے، پانچ بہن بھائی ہیں جو چھوٹے ہیں اس لیے مجھے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی، اب رائیڈنگ کے ذریعے اپنی والدہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کرتا ہوں سر… آپ نے یہ آرڈر دیا تھا، وہ ایک دم اپنے مدعے پر آگیا میں نے جیب سے بٹوہ نکالا، 380 روپے کا بل ادا کیا، اور پرس میں سے مزید ایک ہزار روپے نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا یار… یہ آرڈر میں نے اپنے لیے نہیں بلکہ آپ کے لیے بک کرایا تھا، آج تم ہمارے مہمان ہو، یہ کھالینا پلیز وہ حیرت زدہ آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہا، اس آنکھیں کی “مخصوص چمک” دیدنی تھی، میں نے سلام کیا اور گھر واپس آگیا دوستو….!! فوڈ سپلائی رائیڈرز کی اکثریت کی یہی حالت ہوتی ھے، حالات کے مارے یہ نوجوان کوئی معقول ملازمت نہ ملنے کے باعث شدید معاشی مشکلات سے پریشان ہوکر اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں، اِن میں سے کئی نوجوان اعلی تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں عرض یہ کرنی تھی کہ اِن کے ساتھ نرمی والا معاملہ برتا کریں “کبھی ایک ایسا ہی” چھوٹا سا آرڈر” آپ بھی بک کرائیں جو آپ کے لیے نہ ہو”اللہ آپ سے راضی ہو جمع تقسیم ! جوائنٹ فیملی میں اس لیے نہیں رہنا ہوتا کہ پرائیویسی نہیں ہے اور پرائیویسی کیوں چاہیے کہ دن چڑھے سوتے رہو میاں ناشتہ کیے بنا آفس چلا جائے میڈ دروازہ بجا بجا کے واپس چلی جائے۔ اس کے بعد گھر گندا پڑا ہے تو ہڑا رہے برتن میلے پڑے ہیں تو بلا جانے۔ کھانا چولہے پہ چڑھا کے بھول گئیں جل گیا تو جل گیا یہ نہیں کچھ اور بنا لیں میاں واپسی پر لیتا آئے گا کچھ نا کچھ نہیں تو آرڈر کر دیں گی فوڈ پانڈا کس لیے ہے۔ خود صوفے پر لم لیٹ ہو کے سہیلیوں سے گپیں لگ رہی ہیں ہوش نہیں کہ شوہر کے واپس آنے کا وقت ہو گیا ہے۔ بس شوہر آئے اٹھکیلیاں کرو چپک کے بیٹھ جاو کھانا جل گیا میڈ ائی نہیں تو گھر صاف نہیں خود بھی میلی کچیلی۔ جوائنٹ فیملی میں تیار شیار رہنا پڑتا تھا وقت پر کام کرنے پڑتے تھے سونے جاگنے کا خیال رکھنا پڑتا تھا کیونکہ شادی زمہ داری کا نام ہے جان چھڑانے کا نہیں۔ اور فیملیز میں سب کے ساتھ مل کر چلنا ہوتا ہے وہ برا لگتا ہے بس آزادی چاہیے کہ کوئی پوچھنے والا نا ہو شوہر کھانا مانگے تو اسے کہو کھانا جل گیا بات ختم وہ ناراض ہو تو خعد بھی کمرے میں روٹھ کے بیٹھ جاو ٹھیک ہے ساس سسر برے تھے جوائنٹ فیملی سسٹم برا تھا تو بی بی اپنا گھر تو سنبھالو وہ بھی نہیں سنبھل رہا۔ جو کچھ بڑی بہوں نے ساتھ رہ کے کیا وہی یہ الگ رہ کے کر رہی ہیں کیا فرق ہے انہوں نے بھی لاپروائی دیکھائی فیملی پالیٹکس میں پڑی رہیں یہ بھی لاپروا ہیں صوفے پہ پڑے رہنے کی شوقین۔۔۔۔ ان کے بچے بھی ویسے کی نیگلیکٹ ہوں گے جیسے بڑی کے ہوئے ان کے کزن نے ہراسمنٹ کی یہاں ملازم کریں گے۔ اس لیے جناب سسٹم کوئی بھی برا نہیں ہے اس کو چلانے والے انسان اچھے یا برے ہیں جوائنٹ فیملی میں انصاف ہو اور حقوق غصب نا کیے جائیں تو یہ سسٹم گروم کرتا ہے بہوں کو بھی بچوں کو بھی۔ اس سسٹم سے بھاگنے کی نہیں اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے ناخن بڑھ جائیں تو ناخن کاٹے جاتے ہیں انگلیاں نہیں اسی طرح ایک سسٹم میں خرابیاں ہوں تو خرابیوں کو درست کریں سسٹم ختم مت کریں اس سسٹم کو موثر بنائیں۔ جوائنٹ فیملیز میں والدین کی زندگی تک اگر دو تین بھائی ہیں تو سب کے الگ پورشن ہوں کھانا پینا الگ ہو مگر ماں باپ کے ساتھ ہوں۔ ہمارے معاشرے میں والدین کا اولاد کی زندگیوں میں رول بہت زیادہ ہے قربانیاں بہت زیادہ ہیں یہاں صحت تعلیم کچھ بھی مفت نہیں سب والدین کو کرنا پڑتا ہے اور وہ خون پسینہ ایک کر کے اولاد کے لیے یہ سب کرتے ہیں پڑھاتے لکھاتے قابل بناتے پھر سیٹل کرتے ہیں۔ ہاں والدین کو اولاد کی زندگیاں نہیں جینی چاہیں انہیں خود مختار کریں اپنے فیصلے کرنے دیں ان کی بیویوں کے ساتھ معاملات میں ہرگز مداخلت مت کریں مگر والدین کا یہ حق ہے کہ اولاد ان کا خیال رکھے انہیں بڑھاپے میں اکیلا چھوڑ کے الگ دنیا نا بسائے بڑھاپے میں اولاد اور ان کی اولاد تھراپی ہوتی ہے ماں باپ کا دل بہلا رہتا ہے ان کے بڑھاپے کا سہارا بننا اولاد کا فرض ہے بالکل ویسے جیسے اولاد جب تک مکمل نہیں سنبھلتی والدین سہارا بنے رہتے ہیں انہیں کبھی نہیں چھوڑتے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کو ایسا بنائیں کہ سب الگ الگ رہیں مگر جڑے رہیں خود مختاری ہو مگر ماں باپ کو تنہا نا چھوڑا جائے یہاں بزرگوں کا کردار بہت اہم ہے کہ نئی بہووں کو سپیس دیں انہیں اپنائیں گھر کا فرد سمجھیں اور اس کے بعد انہیں گروم کریں گھر داری سیکھائیں انکی شخصیت نکھاریں نا کہ ان سے انسیکیور ہوں۔ یہ بہت وسیع ٹاپک ہے اس ہر بات ہوتی رہنی چاہیے نیوکلئیر فیملی کا مطلب شتر بے مہار ہونا نہیں ہے شادی تب بھی ایک زمہ داری ہی رہے گی ۔ خیر عملی زندگی کی بہتری کیلئے قلم کے زریعے جڑے رہینگے اور آپکو بھی کوشش کرتے رہینگے کہ کامیابی کا حل بتا سکیں اور عملی زندگی میں ناکامیوں سے بچنے کا مکمل حل آرام طلبی سے بچیں سکون سے رہیں اور دنیا میں کامیاب لوگوں سے سیکھیں تو کام و زندگی دونوں آسان ۔
٭٭٭















