مقامِ عورت اور اسلام !!!

0
48

مقامِ عورت اور اسلام !!!

محترم قارئین! اسلام سے قبل عورت انتہائی تضتہ جاں اور زبوں حال تھی، تمام تہذیبوں میں اس کو عیاشی کا سامان سمجھا گیا تھا، اور تو اور صاحبان کتاب نے بھی پیغمبرانہ تعلیم کو تبدیل کرکے عورت کے حقوق ضبط کرلئے تھے اور آج تک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل کا ردعمل بھی شدید ہوا اور مغرب میں آزادی نسواں کی تحریکوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ اور آج مشرق دنیا بھی ان مسائل میں الجھتی جارہی ہے۔ قدیم بابلی تہذیب میں ماں، اور بیٹی میں کوئی امتیاز نہیں تھا۔ کسی رشتے کا تقدس ملحوظ خاطر نہیں تھا اور آج کا یورپ بھی اس لعنت میں گرفتار ہوتا نظر آتا ہے وہاں پر عزتیں سرعام نیلام ہوتی ہیں۔ فرنچ سینٹ کے ایک رکن موسیو فرونان دریغو نے کہا ہے: قحبہ گری کا پیشہ اب محض انفرادی کام نہیں رہا۔ بلکہ اس کی ایجنسی سے جو مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کی وجہ سے یہ ایک تجارت اور منظم حرفہ بن گیا ہے اس کی باقاعدہ منڈیاں موجود ہیں۔ دس سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی مانگ زیادہ ہے”(العباذ باللہ) ڈاکٹر ایڈتھ ہو کر اپنی تصنیف میں لکھتا ہے تصنیف کا نام ”Laws of sex” ہے۔ ”نہایت مہذب اور دولت مند طبقوں میں بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ آٹھ برس کی لڑکیاں اپنے ہم عمر لڑکوں سے عشق ومحبت کے تعلقات رکھتی ہیں، جن کے ساتھ بعض اوقات بدفعلی بھی ہوجاتی ہے”۔یہ حقیقت ہے کہ عورت اس نظر گاہ جہاں کی حسینی ترین ہستی ہے اور اپنے وجود سے کائنات کے حسن میں دلکش اضافہ کرتی ہے اقبال علیہ الرّحمة نے صحیح فرمایا ہے: وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔۔۔۔۔اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سزدروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خاک اس کی۔۔۔۔۔کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُرّمکنوں اسلام نے عورت کے حسن کو چار چاند لگا دیے اور اس کے حقوق تسلیم کرکے تمام پریشانیوں سے نجات دلائی اسلام نے عورت کے مختلف ناتوں اور رشتوں کی پہچان کروائی اور ہر رشتے کو الگ الگ عظمتیں تقسیم کیں۔ عورت کے گوہر عفت کی حفاظت کے لئے پردے کا قانون تشکیل دیا۔ اس کے اخلاقی، تمدنی، معاشی اور معاشرتی حقوق کی سرپرستی فرمائی۔ ذیل میں ہم عورت کے ان رشتوں اور ناتوں کا ذکر کرتے ہیں جن کو قائم رکھنے سے نظام زندگی میں ایک خوبصورت توازن پیدا ہوتا ہے۔ ماں کا رشتہ اس قدر تقدس مآب رشتہ ہے کہ محبوب خداۖ نے جنت جیسی اعلیٰ اور ابدی نعمت ماں کے قدموں صدقہ قرار دی ہے ماں کی بھی کچھ حیثیتیں ہیں۔ حقیقی ماں، سوتیلی ماں، رضاعی ماں، بیوی کی ماں، اہل عرب باپ کے انتقال کے بعد زمانہ جاہلیت میں اپنی سوتیلی ماں سے جبراً شادی کرلیا کرتے تھے! اسے باپ کی میراث تصور کرتے تھے۔ حضورۖ کی آمد کی برکت سے ماں کی پاکیزہ شخصیت کے یہ پہلو انسان کے دست ہو میں سے محفوظ ہوئے قرآن کے اعلان فرمایا: ترجعہ: ”اور نہ نکاح کرو جن سے نکاح کر چکے تمہارے باپ دادا مگر جو ہوچکا ہے۔ بے شک یہ فعل بہت حیا باختہ، نفرت انگیز اور برا ہے” اس کے ساتھ ساتھ حضورۖ کی برکت سے رضاعی ماں اور بیوی کی ماں یعنی ساس کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ قرآن میں واضح طور پر فرما دیا گیا: ترجعہ: ”حرام کر دی گئیں تم پر تمہاری مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری بیویوں کی مائیں” (پارہ نمبر4سورہ نسائ) گویا حضورۖ نے تشریف فرما ہو کر اس مقدس ومطھر رشتے کی لاج رکھ لی۔ بہن اور بیٹی کا رشتہ بھی بڑا عظیم رشتہ ہے لیکن دور جہالت میں بہن اور بیٹی کو باعث شرم سمجھا جاتا تھا۔ شاعر لوگ اعلانیہ میلوں میں دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں کا نام لے کر رومانوی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کو زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ حضورۖ کی برکت سے یہ بہنیں اور بیٹیاں انسان کی دستارِ فضلیت قرار دی گئیں۔ آپۖ نے فرمایا:”بے شک تم پر حرام کر دیا گیا ہے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا”(بخاری ومسلم) اسلام نے ان کا میراث میں حصہ مقرر فرمایا ہے۔ حضورۖ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی بیماری پر عیادت کی تو انہوں نے عرض کی کہ حضور میرے پاس بہت مال ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں تو کیا میں دو تہائی مال خیرات کردوں” فرمایا، نہیں۔ انہوں نے کیا، نصف، فرمایا: نہیں، کہا: تہائی: فرمایا: ہے تو تہائی بھی زیادہ، اگر تم اپنی اولاد کو مالدار چھوڑو تو یہ انہیں مفلس چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے دست طلب دراز کرکے پھریں(بخاری شریف) اسی طرح زمانہ جاہلیت میں بیوی کی بھی کو عزت نہیں تھی۔ اسلام نے بیوی کو بھی عزتوں کی خلعتیں پہنا دی ہیں۔ وارثت کا حق دار ٹھہرایا، حق مہر رکھا، خلع کا اختیار دیا، پسندوناپسند کرنے کا حق دیا۔ اہل وعیال پر خرچ کرنے کو نیکی قرار دیا۔جن کی تفصیل بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here