نیتن یاہو کی مضحکہ خیز تجویز !!!

0
45

اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بیان نہ صرف ایک غیر سنجیدہ بلکہ انتہائی توہین آمیز بھی ہے۔ یہ بیان اسرائیل کے طویل المدتی توسیع پسندانہ عزائم اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بیدخل کرنے کی سازشوں کا تسلسل ہے۔نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے دراصل اسرائیل کی نوآبادیاتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ عرب ممالک کی مشترکہ مخالفت، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، اور علاقائی عدم استحکام کے خطرات اس منصوبے کو ایک نئی جغرافیائی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ امریکہ کی گزشتہ صدی میں کی گئی فوجی مداخلتوں کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ یہ حکمت عملیاں نہ صرف انسانی المیوں کو جنم دیتی ہیں بلکہ طویل مدتی عدم استحکام کو بھی فروغ دیتی ہیں۔ ٹرمپ کا خواب ہے کہ غزہ کو ”مشرق وسطی کی ریویرا” میں تبدیل کیا جائے، جہاں امریکی فوجی تعیناتی کے ذریعے امن و امان قائم کیا جائے اور اقتصادی ترقی کی جائے۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کی ذمہ داری لے گا اور فلسطینیوں کو دوسری جگہ آباد کرنے کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کرے گا اور اس علاقے کو مشرق وسطیٰ کا ریویرا میں تبدیل کر دے گا جس میں فلسطینیوں سمیت دنیا کے لوگ رہیں گے۔ ریویرا ایک ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے سمندر کا کنارہ لگتا ہے اور لوگ عموما سیاحتی مقاصد کے لیے جاتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کو یاد ہوگا کہ امریکی مہم جوئی کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ عراق میں 2003 سے 2011 تک جاری رہنے والے حملے کے جواز میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں’ کے جھوٹے بہانے و بیانیہ نے 205,000 شہریوں کی جان لی، داعش جیسے گروہوں کو جنم دیا، اور ملک کو فرقہ وارانہ جنگ میں دھکیل دیا۔ موصل اور رقہ جیسے شہر مکمل طور پر تباہ ہو گئے، جبکہ 1.5 ٹریلین ڈالر کی معاشی تباہی نے خطے کو عدم استحکام میں دھکیل دیا۔ صدر ٹرمپ نے امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگ کا خاتمہ بھی تو دیکھا ہے، کیا وہ اسرائیل کی حمایت میں یہ بھول گئے کہ افغانستان میں 2001 سے 2021 تک جاری رہنے والی 20 سالہ جنگ میں 2 ٹریلین ڈالر کی لاگت، 243,000 اموات، اور افغان طالبان کی واپسی نے ثابت کیا کہ امریکی جمہوریت کی برآمد کا خواب ناکام رہا۔ ویت نام میں 1955 سے 1975 تک جاری رہنے والی جنگ میں 3.8 ملین اموات اور ماحولیاتی تباہی کا ورثہ آج بھی موجود ہے، صدر ٹرمپ کو غزہ پر قبضے کے خواب کا اعلان کرنے سے پیشتر ان حقائق سے واقف ہونا ضروری تھا۔ ٹرمپ کا غزہ پلان دراصل پرانی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے کا منصوبہ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے 2 ریاستی حل مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی مضحکہ خیز تجویز دے دی۔ دورہ امریکہ کے دوران انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ یہ وہی اسرائیل ہے جو 1948 میں لاکھوں فلسطینیوں کو جبری ہجرت پر مجبور کر چکا ہے اور آج بھی مسلسل فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضے، غیرقانونی یہودی بستیاں تعمیر کرنے اور انہیں بیدخل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی غزہ کے فلسطینیوں کو مصراور اردن میں منتقل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس طرح کے خیالات درحقیقت فلسطینیوں کے قومی تشخص اور ان کے قانونی و تاریخی حقوق کو ختم کرنے کی سازش ہے۔اسرائیل نے گزشتہ دہائیوں میں فلسطین کے علاقے کو جغرافیائی اور سیاسی طور پر محدود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مغربی کنارے کو دیواروں اور چیک پوسٹوں کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا ہے، غیرقانونی یہودی بستیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں، اور غزہ پر طویل عرصے سے جاری محاصرہ فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کر چکا ہے۔ ان حالات میں اسرائیل کا یہ مطالبہ کہ فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں، نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ایک نسل کشی کی ذہنیت کی نشانی بھی ہے۔جرمنی پولینڈ جاپان اور دنیا کے کونے کونے سے یہودی لا کر فلسطینی سرزمین پر بسادیئے۔اب ان کے لیے وطن کے اصل مالکوں کا وجود ناقابل برداشت ہو رہاہے۔بدقسمتی سے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور مسلم ممالک کی اکثریت اسرائیل کے ان توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف محض مذمتی بیانات دینے اور قرار دادوں کی منظوری سے آگے نہیں بڑھ رہی جس سے الحادی قوتوں کے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، بالخصوص ان مسلم ممالک کو جن کے پاس سفارتی، عسکری اور اقتصادی اثر و رسوخ موجود ہیان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ فلسطینیوں کی آزادی کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔خصوصی طور پر وہ ممالک جن کے ہاں امریکہ نے اسرائیل کی حفاظت کے لیے دفاعی نظام نصب کر رکھا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here