مشرق وسطیٰ اور ٹرمپ !!!

0
3

مشرق وسطیٰ
اور ٹرمپ !!!

الیکشن مہم کے دوران جنگوں کو ختم کرنے کا بیانیہ مقبول بنانے والے صدر ٹرمپ پر مسلم اُمہ کی نظریں ہیں کہ وہ کس طرح مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں جنگیں ختم کرنے کا ان کا بیانیہ یوکرین روس تک ہی محدود رہے گا ، کونڈا لیزا رائس نے ماضی میں اسرائیلی قیادت اور عوام کو خوش خبری سنائی تھی کہ 2006 کی لبنان۔ اسرائیل جنگ وہ ‘درد زہ’ ہے جس سے ایک نیا مشرق وسطیٰ جنم لے گا۔اسرائیل نے تو اب بیک وقت کئی جنگیں چھیڑ رکھی ہیں اور جنگی محاذ کھول رکھے ہیں۔ ایسے میں مشرق وسطیٰ کی نئی صورت گری کا امکان اسرائیل کیوں نہیں دیکھنا چاہے گا؟2025 کے مشرق وسطیٰ میں بہت سی چیزیں اظہر من الشمس ہیں۔ نوشتہ دیوار کی صورت موجود ان حقیقتوں کو تقریباً ہر مردِ خود آگاہ سمجھ رہا ہے، ہر ملک اور علاقے میں اس کا ادراک پوری طرح موجود ہے،اس حقیقت کو اگرعلامتاً بیان کیا جائے تو علامہ اقبال کا یہ ایک شعر ہی کافی ہے۔
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
امریکہ کے شہ دماغوں کی طرف سے بنائے گئے اس نئے نین نقشے کو سمجھ لیں، جو 1990 کی دہائی کے شروع سے انہوں نے سوچ لیا تھا یا قرار دے دیا تھا، لیکن اس کو پوری شرح و بسط کے ساتھ جارج ڈیبلیو بش نے جون 2004 میں ‘جی ایٹ’ کے سامنے پیش کیا تھا۔جارج ڈبلیو بش، جنہوں نے نائن الیون کے بعد پرانی صلیبی جنگوں کے انداز میں افغانستان پر یلغار کی تھی، نے نئے مشرق وسطیٰ میں جن ممالک کو شامل قرار دیا ان میں افغانستان، لیبیا، پاکستان، شام، ترکی، ایران، مصر، بحرین، جبوتی، موریطانیہ، الجزائر، مراکش، صومالیہ، سوڈان، یمن، سعودی عرب، عرب امارات، فلسطین، اسرائیل، کویت، قطر، سلطنت آف عمان، لبنان، عراق اور اردن شامل ہیں۔ممکن ہے کوئی اِکا دْکا مملکتوں کے نام اس فہرست میں تحریر نہ کیے جا سکے ہوں، تاہم نئے مشرق وسطیٰ کے طور پر نشانہ اور اہداف بڑے واضح ہیں۔ان ملکوں کے ناموں پر نظر ڈالنے سے سمجھ آ سکتی ہے کہ تباہی و بدامنی اور دہشت گردی کی تباہ کاریاں نئے مشرق وسطیٰ میں شامل ملکوں کی پہلی ترتیب میں نمایاں ہے۔انہیں ‘گریٹر اسرائیل’ کا نقشہ بنائے بیٹھا اسرائیل بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہے اور نئے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بنانے والے امریکہ کے لیے بھی قابل قبول نہیں۔مشرق وسطیٰ کے ایک ایک ملک کی قیادت یہ سب کچھ سمجھتی ہے مگر اس بارے میں کسر نفسی یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہے۔مشرق وسطیٰ کے ملک بھی اپنے انٹیلی جنس اداروں کی کاوشوں میں اشتراک پیدا کر لیں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔بس شرط یہ ہے کہ پہلے باہمی تفرقوں اور جھگڑوں سے بچنے کے شعوری راستے پر چلنے کے لیے خود کو تیار کر لیں۔اس تفصیلی تمہید کے بعد ان چیلنجوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو نئے مشرق وسطیٰ کے مذکورہ بالا ملکوں کو درپیش ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد آمد ہے، محض دو ہفتے بعد وہ بطور امریکی صدر حلف اٹھا کر وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوں گے۔مسئلہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ کس سمت پر چل پڑتے ہیں ابھی اندازہ نہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی شخصیت کے دو پہلو بڑے واضح ہیں۔ایک یہ کہ وہ جیسے ہیں، ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں وہ امریکہ کو بھی یقیناً اپنے ہی فکر و عمل اور اسلوب میں ڈھلی ہوئی مملکت کے طور پر دنیا کی اقوام کے ساتھ بروئے کار دیکھنا چاہیں گے۔ٹرمپ کی شخصیت میں غیر معمولی اعتماد انہیں دھونس اور تحکم کی طرف لے جاتا ہے، اس لیے وہ بطور امریکی صدر اپنی طاقت اور طاقت ور لہجے کا بھرپور استعمال کریں گے۔یقیناً ٹرمپ کے اس طاقت ور لہجے کا استعمال انہی ملکوں، اقوام یا قیادتوں پر زیادہ ہو گا جنہیں وہ اس قابل سمجھیں گے کہ ان پر یہ ‘جبری ہنر’ آزمایا جا سکتا ہے۔البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا ایک پہلو غیر واضح ہے۔ جس کے بارے میں عام طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔یقیناً اس میں ان کی شخصیت اور ملک کی طاقت کا دخل زیادہ ہے کہ وہ جہاں چاہیں، جو چاہیں پہلے سے موجود اصولوں کی ایسی تیسی پھیر دیں اور پرانے چلے آ رہے اصولوں کو اپنے حق میں نہ دیکھیں تو انہیں فرسودہ بلکہ چاہیں تو بے ہودہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔ان کا اقوام، ممالک اور حتیٰ کہ دوسرے ملکوں میں موجودہ حکمرانوں اور شخصیات کے بارے میں بھی یہی طریقہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔امکانی طور پر وہ عملیت پسندی پر مبنی فیصلے زیادہ کر سکتے ہیں۔بظاہر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جنگوں سے جس بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے بھی وہ اسی انداز سے سوچیں گے بلاشبہ مثبت طرز فکر یہی ہے کہ یہ گمان رکھا جائے مگر صدر ٹرمپ سے زیادہ توقع یہ ہے کہ وہ جنگوں کے خاتمے کے اپنے اعلان کو یوکرین اور روس کی جنگ کے سلسلے میں زیادہ اہم سمجھیں گے۔فطری بات ہے کہ جو اہمیت امریکہ و یورپ کے لیے یوکرین کی ہے وہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی عرب ملک یا فلسطین کی ہرگز نہیں ہو سکتی۔مشرق وسطیٰ میں مسائل کی حیثیت امریکہ اور یورپ کے لیے ‘آم کے آم گٹھلیوں کے دام’ والی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here