جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اور لکھ کر ثابت کر چکے ہیں کہ تقویم ایک تاریخ ہے، افغانستان اور امریکہ کی دھاندلی کی جس کا حاصل دیکھ رہے ہیں جو اب افغانستان سے نکل کر کئی مسلمان ملکوں کو تباہ کرچکی ہے۔ کھیل کھیل میں اور جنگی ہتھیار بیچنے کے جنون میں۔ کتاب میں نیویارک کے کئی شعراء اور مضمون نگاروں نے لکھا ہے جس کا ہم پہلی قسط میں ذکر کر چکے ہیں۔ اُن کا تجزیہ خوب ہے اور ان کا تعلق جاری رہنے والی جارحیت سے ہے۔ نیویارک کے بزرگ شاعر جو اردو کو مشکل الفاظ سے نوازتے ہیں۔ ان کی یہ تحریر پڑھ کر چکرا گئے عتیق صدیقی کی تحریر میں تقویم کو ”حرز جاں” کا درجہ حاصل ہے۔ جو پڑھنے والے کی سوچ سے اوجھل ہوگیا کاش وہ آسان لفظ لے آتے دوسرا جملہ ٹھیک ہے کہ یہ تاریخ ہےAIMANAK۔(خبتری) ہے۔ لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پڑھنے والا اپنی سوچ اور علم سے اس کتاب کو پڑھے گا اور جب بھی کسی کو معلومات کی ضرورت ہوگی وہ تقویم کی طرف رجوع ہوگا۔ اُسے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں۔ جن لوگوں نے چاہے وہ یہاں کے ہوں یا پاکستان کے ہندوستان کے ہوں یا افغانستان کے یہ واقعات اپنے طور اور ذہانت سے قلم بند کئے ہوں۔ عتیق صدیقی صاحب کو اہمیت حاصل رہے گی۔ اس سے خوبصورت الفاظ نہیں ہوسکتے جو ناصر علی سیّد نے ان الفاظوں میں نوازہ ہے۔ ”جنگلوں میں چیخنے والی قدیم حیوانیت کو ہم جدید دور کے انسانی حقوق کے دعویدار ملک کے ایک سربراہ کی اس شوخی سے کس طرح الگ کر پائینگے جو اس نے9/11کے شکار ٹاورز کے ملبے پر کھڑے ہو کر دکھائی تھی” دنیا خاموش تھی اور ہے یہاں لکھتے چلیں کہ اسی دوران فرانس کی اداکارہ جواکاڈمی ایوارڈ لے کر جارہی تھی نے9/11کے بارے جو کہا تھا وہ امریکی میڈیا کے لئے بار گزرا تھا اور اُسے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اب گوگل پر اسکی تفصیل نہیں ملتی۔ اس کا کہنا تھا اسپین میں ایک٢٦فلور کی بلڈنگ کو جہاز نے ہٹ کیا تھا وہ گری نہیں تین دن تک آگ جلتی رہی۔ لیکن کیا کیا جائے پنڈتوں نے جو کہہ دیا وہ پتھر کی لکیر ہے اور عتیق صدیقی صاحب نے جو ایک پکچر تو خوبصورتی سے الفاظوں میں سمویا ہے۔ ”میں نے ایک حملہ آور فوج کے ظلم وتشدد پر کبھی کذب کا مُلمع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پشاور شہر کی بند دوکانوں کے تھڑوں پر ”کس چرسی کے مارے ” مظلوم بھوکے اور اپاہج افغان بچوں کو میں نے سویا ہوا دیکھا ہے ا ور ان کی حرماں نصیبی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ یہ مناظر آج بھی میرے جذبہ و احساس میں بستے ہیں۔
انہوں نے اپنے دوست ناصر علی سید کو ان الفظوں میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ”ناصر علی سید میرے ایک دیرینہ بہت مخلص دوست ہیں۔ آپ پشاور کے ایک صاحب طرز شاعر، نقاد، ادیب اور ہر دلعزیز میڈیا شخصیت ہیں۔ ناصر صاحب کی توجہ رہنمائی اور تعاون کے باعث میری تحریروں نے ایک ک تاب کا روپ دھارا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ ہمیں بھی ان سے مل کر اس بات کا یقین ہوگیا تھا اور یہ ضخیم کتاب اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس دہائی کی یہ سب سے جامع کتاب ہے۔ جسے آپ لے کر چھوڑ نہیں سکتے۔ پڑھئے جانیئے اور پرکھیئے کہ پچھلے20سال میں کیا کچھ نہیں ہوا ہے۔ یہ کالم پشاور کے روزنامہ”آج” کی زینت بن چکے ہیں۔ عتیق صدیقی کے صفحہ36پر کالم ”قلعہ جھنگی اور جینیوا کنونشتر” سے یہ پیراگراف پڑھیئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدHOLOCAUSTجیسے خوفناک، جنگی جرائم کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر1948میں ایک قرار داد پاس کی جیسے ”نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنوینشن” کہا جاتا ہے لیکن حالیہ پچھلے دو سالوں میں اس پر کوئی پابندی نہیں جو ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں۔
عتیق صدیقی صاحب نے پرویز مشرف کے لئے خاصا لکھا ہے اور انہیں میئر آف اسلام آباد کا خطاب دیا جہاں ان کی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئی تھیں ”افغانستان ہمیشہ سے حملہ آوروں کے لئے ایک ناقابل تسخیر میدان جنگ رہا ہے۔ مگر اچنبھے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں امریکی مفادات کی نگرانی کرنے والی مشرف حکومت بھی حامد کرزئی کی طرح بے بس نظر آتی ہے”۔
گیارہ ستمبر اور صلیبی جنگ22ستمبر2002کا کالم ہے۔ جس میں افغانستان کے رشید دوستم(جو امریکہ سے ملا ہوا تھا) حقیقت کھولی ہے جو دل دہلانے والی حقیقت ہے”انہی دنوں میں دو نومبر کو قندھار کی فتح کے موقع پر جنرل رشید دوستم نے قلعہ جھنگی میں امریکی فوج کی موجودگی میں ہتھیار ڈال دینے والے400طالبان جنگجوئوں کو بندکنٹینر میں بند کرکے اذیت ناک موت سے دوچار کردیا۔ اس سانحہ کو اس وقت بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے یوں نظرانداز کیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے بعد جب امریکی طیاروں نے تورا بورا اور دشت لیلیٰ تین اندھا دھند بمباری کرکے سینکڑوں بے گناہ افغانوں کا قتل عام کیا تو پھر عالمی ضمیر نے کروٹ لی۔ اس وقت بش صدر نے ویسٹ پوانٹ مین کیڈنوں سے خطاب کرتے کہا تھا۔ ”اب انتظار اور تحقیق کے دن ختم ہوئے اور امریکہ کو پیشگی حملہ کرنے کی پہل کرنی ہے ایسا عراق میں کیا گیا۔ جارج بش نے اپنے دور میں جو مارا ماری کی اور کہا تھا جو ہمارے دشمن نے شروعات کی ہے۔ ہم ختم کرینگے”ENDLESS WAR AGAINST ENDLESS ENTITY” ایک اور کالم ہے ”مدرسے اور دہشت گردی” جو29جون2005میں لکھا گیا ہے اور آج بھی یاد تازہ ہوجاتی ہے اسلامی مدرسوں پر دہشت گردی کا یہ الزام کسی قدر بے بنیاد ہے کہ اس کا اندازہ گزشتہ ماہ شائع ہونے والی اس ریسرچ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں75مسلمان اسیروں کے تعلیمی بیک گرائونڈ کا مطالعہ کیا گیا ہے یہ تحقیقPETER BERGENاور سواتی پانڈے کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ”مناواں اکیڈمی پر حملہ”4اپریل کا کالم ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے صرف یہ جملہ جو بارک اوبامہ نے جمرود کی مسجد پر حملے سے چند گھنٹے بعد وہائٹ ہائوس میں کانگریس سے کہا تھا اور اس میں اوبامہ کی ذہنیت پنہاں ہے۔
”THE ERA OF BLANK CHECK IS OVER” ایک اور دل دکھانے والا کالم جس کا تعلق عافیہ صدیقی سے ہے صفحہ222پر20اکتوبر2009کا ہے عتیق صدیقی صاحب کیا خوب لکھا ہے۔ ”چند ماہ پہلے تک پاکستان کا نیوز میڈیا یہ سوال پوچھ رہا تھا کہ 31مارچ2003کو کراچی کے گلشن اقبال میں سفاری پارک کے قریب واقع ایک پٹرول پمپ پر کھڑی ٹیکسی میں بچوں سمیت اغواء کی جانے والی عافیہ صدیقی کہاں ہے اس دوران یہ حقائق سامنے آئے تھے کہ وہ36سالہ خاتون ایف بی آئی کیMOST WANTEDلسٹ میں شامل تھی اور اُسےISIنے اغواء کرکے امریکی ایجنسی کے حوالے کیا تھا۔ امریکہ نے کچھ عرصہ پہلے عافیہ صدیقی کو ایک ایسی دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جس کے القاعدہ سے گہرے روابط تھے۔ اگلے کالم میں انہوں نے بہت پتے کی باتیں لکھی ہیں”یہ مقصد کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کی گھڑی تیزی سے اپنا سفر طے کر رہی ہے ہمارا شعر بھی ہے ہم اُسے اور وہ ہمیں کبھی نہ کبھی مل ہی جائینگے۔ اور آج اس بات کو پندرہ سال ہونے کو آئے لیکن کہیں سے کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی۔ اب ذرا افغانستان سے نکل کر دیکھیں تو ایک اور دل دہلانے والا واقعہ لاہور میں پیش آتا ہے اور پاکستانیوں کو یاد دلانے کے لئے اس کا ذکر ضروری ہے۔ ریمنڈایلن ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو اس لئے ہلاک کیا کہ اُسے سو فیصدی یقین تھا کہ اس ملک کا قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس لئے کہ وہ امریکی ہے اور پاکستان میں مشن پر کام کر رہا ہے۔ باتیں اور کالم اور بھی ہیں لیکن ذکر کرتے چلیں کہ ٹائیٹل کے آخری صفحہ پر یونس شرر کا لکھا ہوا یہ کالم حقیقت سے تعلق رکھتا ہے ”عتیق صدیقی حیران کن حد تک کالم نگاری کے رہنما اصولوں کو سمجھتے ہیں اور اپنے کالموں میں نہ صرف ان کا خیال رکھتے ہیں بلکہ اُن پر دسترس بھی حاصل ہے۔ اس کے ساتھ طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس کتاب سے ایک ہی بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جنگ جاری رہے گی”۔
٭٭٭٭٭