دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی دو جماعتی نظام تھا، ایک کے بعد دوسری پارٹی برسراقتدار آتی تھی، سیاسی بحث مباحثے ہونے کے ساتھ ساتھ تنقید برداشت کرنے کا رواج بھی تھا اور اپنی سیاسی پسندیدہ جماعت غلط کاموں پر برملا ناراضگی کا اظہار کرنے کی جرات بھی موجود ہوتی تھی۔2014 کے بعد جب پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے صورت میں ایک تیسری سیاسی قوت ابھر کر سامنے آئی تو لوگوں کو امید تھی کہ اب نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگا بلکہ اس سے ملکی صورتحال میں سیاسی مقابلہ بازی کی وجہ سے بھی بہتری آئے گی۔
سیاسی شعور اور سیاسی بحث زندہ معاشروں کی نشانی ہے، مگر ایک بار پہلے بھی میں شاید اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی عوام میں سیاسی بحث کا بنیادی فرق بڑا واضح ہے، مثلا ترقی پذیر ممالک کی عوام شب و روز سیاست پر بحث کرتے رہیں گے، اپنی اپنی جماعت کی حمایت کے لیے مختلف دلیلیں گھڑتے رہیں گے، اور انتخابات کے موقع پر ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلیں گے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی 50 فیصد ٹرن آٹ حاصل کرلینا الیکشن کمیشن کے لیے بڑا معرکہ کہلاتا ہے۔
دوسری جانب سے ترقی پذیر ممالک کے عوام اپنی اپنی جماعتوں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھتے ہیں، انتخابات کے موقع پر اپنے ووٹ کے ذریعے حکمران جماعت کو کرارا جواب دیتے ہیں۔
گزشتہ دس سالوں میں دیکھیں تو پاکستان میں بھی یہی ہوتا آرہا ہے۔ حکمران جماعت نے مرضی گندی کارکردگی کا مظاہرہ کر لے، ان کے سپورٹر اس گندی کارکردگی کو فضول خدمت کا لبادہ پہنا کر دل و جان سے اسے سجدے کرتے ہیں، دوسرے لوگوں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے کہ پٹرول مہنگا ہونے کی یہ وجہ ہے کہ چیزیں مہنگی ہونے کی یہ وجوہات ہیں، یہ اس وجہ سے ہو رہا ہے وہ اس وجہ سے ہو رہا ہے، غرض کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو یہ لائسنس مل چکا ہے کہ وہ جو مرضی کریں سوشل میڈیا پر ان کیحمایتی کپڑے پھاڑ دفاع کرتے رہیں گے۔ حقیقت میں یہ روش پاکستان میں پہلے اتنی شدت سے موجود نہیں تھی جتنی کے پاکستان تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد مقبول ہوئی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم دوبارہ سے ماضی کی اسی روش میں لوٹ جائیں اور سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعتیں ہی رہنے دے نہ کہ ان کے دفاع کے لیے اپنا پورا زور لگائیں بلکہ یہ زور ان کو ان کی کارکردگی پر لگانے دیں، خراب کارکردگی پر کسی صورت کوئی بھی دلیل ان کی حمایت میں پیش نہ کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو مستقبل میں ڈالر 500 روپے کے برابر اور پیٹرول ہزار روپے لیٹر ڈلوانے کے لیے تیار رہیں۔ جب تک ایسا حمایتی ہجوم ان سیاسی جماعتوں کا دفاعی بریگیڈ بنا رہے گا اس اشرافیہ کے مزے ہی مزے ہیں۔
٭٭٭