طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران افغان ترجمان نے کہا کہ اگر کسی نے افغان سرزمین پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی تو ایسے عناصر کو گرفتار کر کے غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے افغان حکومت سے وعدہ کیا ہے کہ وہ کسی ملک کے لئے خطرہ نہیں بنیں گے۔طالبان ترجمان کی طرف سے یہ یقین دہانی اس لحاظ سے اہم ہے کہ ان دنوں پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے ۔سکیورٹی اداروں کی رائے میں افغانستان اور پاکستان کے دشوار گزار سرحد ی علاقوں کا فائدہ اٹھا کر بعض عناصر پاکستان میں مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے قومی مفادات کو سمجھنے کے لیے تھوڑا سا تاریخی پس منظر جانناضروری ہے۔ 1947 میں برطانوی سلطنت سے آزادی کے وقت، افغانستان واحد ریاست تھی جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔ افغانستان اور برطانوی راج کے درمیان ڈیورنڈ لائن معاہدے کی مخالفت سے کابل کے موقف کی تشکیل کی گئی۔ 1950 کی دہائی میں بلوچستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (سابق فاٹا) میں افغانستان سے حملوں کے بعد دو طرفہ تعلقات مزید خراب ہوئے۔ داود خان کے دور میں افغانستان نے پاکستان میں پشتون اور بلوچ گروپوں کی حمایت شروع کی۔ بالآخر پاکستانکو مجبور کیا گیا کہ وہ افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ایک بہتر منصوبہ تیار کرے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وزارت خارجہ میں افغان سیل قائم ہوا اور پاکستان نے برہان الدین ربانی جیسے اسلام پسند رہنماوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنا شروع کر دیے۔افغانستان پر سوویت حملے کے دوران پاکستان کو موقع ملا کہ وہ افغانستان میں اپنے دوستوں کی تعداد اور رسوخ بڑھا سکے ۔افغان عوام سوویت یونین کو ہر گز شکست نہ دے پاتے اگر پاکستان نے ان کی مدد نہ کی ہوتی۔پاکستان نے پچاس لاکھ مہاجرین کو پناہ دی، ان میں سے پندرہ لاکھ ابھی تک پاکستان میں موجود ہیں ۔ افغانوں کے لئے خوراک کی سپلائی پاکستان سے ہوتی ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے دن امریکہ میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد واشنگٹن نے افغان طالبان کو القاعدہ کی قیادت امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا لیکن طالبان نے پشتون ضابطہ اخلاق کی وجہ سے انکار کر دیا جو مہمانوں کی حفاظت کا مطالبہ کرتا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں نیٹو نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی ۔ افغانستان پر حملہ کیا گیا ۔طالبانکے بہت سے اہم رہنماوں نے پاکستان میں پناہ لی۔اس موڑ پر امریکہ کو پاکستان سے شکایت پیدا ہوئی ۔ کہا گیا کہ وار آن ٹیرر میں شامل ہونے کے باوجود پاکستان نے طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے۔در اصل پاکستان جان چکا تھا کہ افغانستان میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے لوگوں پر غیر ملکی جبر مسلط ہے۔افگانستان میں ایسی حکومت قائم کی گئی جو پاکستان کے مفادات کے لئے خطرہ تھی۔بھارت نے ھامد کرزئی اور پھر اشرف غنی حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں جاری رکھیں ۔یہی وجہ تھی کہ امریکی انخلا کی خواہش پاکستان کے مفادات سے ہم آہنگ ثابت ہوئی تو پاکستان نے تعاون پیش کیا ۔ پہلے افغان امن مذاکرات کی خود میزبانی کی ۔ پھر امریکہ، چین، قطر اور روس کی میزبانی میں مذاکرات کی حمایت کی۔ دیگر علاقائی فریقوںکی طرح پاکستان نے بھی طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کی حمایت کی۔ امریکہ طالبان امن معاہدے کے ایک حصے کے طور پر جس میں اشرف غنی حکومت فریق نہیں تھی، امریکہ افغانستان سے تمام فوجیوں کو واپس بلانے کا پابند تھا۔ امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے ساتھ، بائیڈن انتظامیہ نے نائن الیون کی بیسویں برسی (11 ستمبر 2021) تک مکمل دستبرداری کا اعلان کیا۔ جولائی ،اگست 2021 کے دوران جب امریکی فوجیں افغانستان سے نکل رہی تھیں، طالبان نے افغانستان میں مزید علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی کارروائی شروع کر دی۔ افغانستان میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے حملوں کے باوجود پاکستان کا ابتدائی ردعمل گروپ کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کرنا تھا۔ ان مذاکرات کو طالبان نے سہولت فراہم کی۔ ٹی ٹی پی شروع میں یہ بھی چاہتی تھی کہ حکومت سابق فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے لیکن پھر مذاکرات کے آگے بڑھتے ہی یہ مطالبہ واپس لے لیا۔ . نومبر 2021 میں ٹی ٹی پی نے حکومت کی طرف سے اپنے کارکن رہا کرنے کے بدلے میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔ دسمبر 2021 میں پاکستان نے ٹی ٹی پی کے 80 قیدیوں کو رہا کیا۔ ٹی ٹی پی نے دسمبر 2021 میں جنگ بندی معطل کر دی۔ لکی مروت، سوات، باجوڑ، دیر اور صوابی میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں سامنے آئیں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ابھی تک حکومت ٹی ٹی پی کے لیے عام معافی کے بارے میں کسی فیصلے پر نہیں پہنچی ۔ ٹی ٹی پی کی سرمیاں پر امن نہ رہنے سے پاکستان میں ایک بار پھر امن و امان کی صورت حال پر فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔اس فکر مندی کی ذمہ داری افغان حکومت نے قبول کر کے قابل قدر کام کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان اسی صورت ایک دوسرے سے معاشی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب افغان سرزمین پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو سکے ۔
٭٭٭