ایک کلو مینڈک!!!

0
74
شبیر گُل

قارئین کرام!گزشتہ دوسال میں کرونا کی ہولناکیوں سے دنیا میں اکسٹھ لاکھ افراد جان کی بازی ہارگئے ۔ خوف و دہشت کی فضا ابھی قائم ہی تھی کہ روس اور یوکرئن کی جنگ نے دنیا میں تیسری عالمی جنگ کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ پاکستان کے گرد بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔اس کا ادراک کئے بغیر ہمارے سیاسی کھوتے آپس میں دست وگریباں ہیں۔ وزیراعظم کی ناشائستہ زبان ، وزرا کی دھمکیاں اور اپوزیشن کے سخت ردعمل نے حالات میں جنگی ماحول پیدا کردیا ہے۔ سیاستدان گدھوں اور بندروں کی طرح لڑ رہے ہیں۔جنہیں نہ کوئی تہذیب ہے اور نہ کوئی تمیز۔سیاسی اشرافیہ مولا جٹ اور نوری نت کا انداز اپنا چکاہے۔ موجودہ حکومت کا تبدیلی کا نعرہ تھا ۔اس ٹیم نے نئے اور پرانے کھوتے تو تھے ہی اب اس میں مینڈکوں کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ مینڈک کو تولنا انتہائی مشکل،بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ سیاسی کلچراسی مینڈک کی مانند ہے۔ جسے وزیراعظم عمران خان تولنے کی کوشش میں ہیں۔ جس گند پر عمارت کھڑی کی گئی تھی ۔اس گندگی سے خوشبو کی تلاش میں ہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی کیا عجیب مخلوق ہیں۔ یہ بندروں کی طرح ہیں ۔ ان کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو لڑ لڑ کر باغ تباہ کر دیتے ہیں اگر اتفاق ہو جائے تو مل جل کر باغ کھا جاتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کے نزدیک مملکت خدادا کی کوئی اہمیت نہیں ۔ بندروں کی طرح باغ کو اجاڑنے کے درپے ہیں۔ پی ٹی آئی اقتدار کی کشتی کو بھنور میں پھنسے دیکھ کر کل کے ڈاکوں اور دہشت گردوں کے پاں پڑھ گئی ہے۔پی پی نے چوہدریوں کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور ایم کیو ایم کیو سندھ کی گورنری کی آفر کر دی ہے۔
عامر لیاقت حکومتی کشتی کے ہچکولے برداشت نہ کر سکا اور پتلی گلی سے نکل گیا حالانکہ جنرل باجوہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ آجکل سوشل میڈیا پر من چلے کہہ رہے ہیں کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے۔تو نئی حکومت اس بات کا خیال رکھے کہ ایوان صدر،وزیراعظم ہاس، گورنرہاسز اور وزیراعلی ہاوسز میں قائم یونیورسٹیاں بند نہ کی جائیں چونکہ چوتھا سال جاری ہے تو طلبا کے آخری سمیسٹر چل رہے ہونگے۔ وزرا کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر پی ٹی آئی کے منخرف ارکان کو پارلیمنٹ کے مین گیٹ پر روکا جائے گا۔انہیں یہ کہہ کر اندر داخل نہیںہونے دیا جائے گا کہ آپ ہمارے ووٹ لیکر آئے تھے ۔ہم سے غداری نہیں کرسکتے۔ سیاسی محاذ پر تیزی سے ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، اس صورتحال میں الطاف حسین کو بھی دوبارہ لانچ کیا جارہا ہے۔ اسی لئے عمران خان نے الطاف حسین کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے نیا محاذ کھول دیا ہے۔ جو اسے تحریک عدم اعتماد میں نقصان دے گا۔ کیونکہ ایم کیوایم لندن ہو یا ایم کیو ایم پاکستان۔ سبھی ایک ہیں۔ انکا وہی فاشسٹ نظریہ ہے ۔جس کا وہ وقتا فوقتا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ حکمران اتحاد ایک کلو مینڈک تولنے کے کے مترادف ہے۔یہ مینڈک پاکستان کے سیاسی کلچر کا حصہ رہا ہے۔ جسے تبدیلی سرکار بھی اپنا چکے ہیں۔جیسا کرو گے ویسا بھرو گے مصداق جس لانڈری سے یہ تعفن شدہ کھلاڑی نکلے تھے ۔ آج یہ مینڈک ادھراُدھر پھدکتے پھر رہے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کے بعد ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑونگا۔
ڈی چوک پر دس لاکھ کھلاڑی جمع کرکے طاقت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمن نے جی ڈی اے کے کارکنان کو 23 مارچ کو شاہراہ دستور پہنچے کا اعلان کیا ہے ۔ انکا کہنا ہے کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں ۔
وزیرِداخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مولانا کسی کو گڑبڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی اگر ایسے حالات ہوئے تو میرے عزیز ہم وطنو! بھی ہوسکتا ہے۔
بلاول کہتے ہیں کہ جو عمران کا حال کرونگا اسکی نسلیں یاد رکھیں گی۔
وزیراعظم کیطرف سے اپوزیشن کوفضلو،
ڈاکو،ڈیزل، بوٹ پالشیا کے القابات جلسوں میں کہے جارہے ہیں ۔
وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے جن ارکان نے تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیا ۔ انکو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دینگے۔ انکے گلوں میں جوتوں کے ہار ڈالیں گے۔
حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم وزارتوں میں رہتے ہوئے حکومتی کارکردگی سے غیر مطمئن۔
فوج اور عدلیہ فی الحال نیوٹرل نظر آتے ہیں۔ عمران کے بقول نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔اس لئے اسپیکر اسمبلی جانور کا لیبل لگانا نہیں چاہتے ۔انسان بننے کی کوشش میں ہیں۔
چوہدری برادران کو زرداری کیطرف سے پنجاب کی وزارت اعلی کی آفر ۔
ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی کیطرف سے سندھ میں گورنری کی آفر۔
وزیراعظم کا ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر بہادر آباد کا دورہ۔
پنجاب کے چوہدریوں کو منانے کے لئے وزیراعظم ، چوہدری برادران سے دوبارہ ملیں گے۔
ایک ووٹ کی خرید بیس کڑوڑ سے پچاس کڑوڑ اور ایک ارب روپے تک جا پہنچی۔
قارئین کرام! یہ ہے پاکستانی سیاست ۔
اور سیاسی رہنماں کی اخلاقیات۔
ہر طرف دھمکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ حالات خانہ جنگی کیطرف دھکیلے جارہے ہیں۔ وزرا نے اپنی پریس بریفینگ میں بتا ہے کہ اسمبلی میں ووٹ آف نو کانفیڈنس میں ووٹ ڈالنے والے ارکان کو ڈی چوک پر جلسہ سے گزر کر جانا ہوگا۔
وزیراعظم فرماتے ہیں کہ میں آلو اور ٹماٹر کی قیمتیں دیکھنے کے لئے نہیں آیا۔ میں نظام تبدیل کرنے آیا ہوں ۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انصار الاسلام کے رضاکاروں نے پارلیمنٹ لانج میں داخل ھوکر سیکورٹی اداروں کو کئی گھنٹے مفلوج رکھا۔
چند سال پہلے ایم کیو ایم بھی یہی کام کرتی رہی ہے۔
وزیراعظم نے دس لاکھ ٹائیگرز کو اسلام آباد ڈی چوک پر جمع ھونے کی کال اور وزرا مسلسل دھمکی آمیز زبان استعمال کر رہے ھیں ۔ جس سے حالات میں تلخی پیدا ھو چکی ھے۔عدم اعتماد کے موقع پر اپوزیشن اور حکومتی کارکنان آپس میں متصادم ھوسکتے ہیں۔ یہی کام ٹرمپ ہارنے پر ایوان پرچڑھائی کرکے کر چکے ہیں۔ جس کا خمیازہ ابھی تک سات سو افراد بھگت چکے ہیں۔
اگر یہ کام فضل الرحمن، سعد رضوی کرئے تو ناجائز ۔ حکومت ٹائیگرز کو جمع کر کے کرئے تو جائز ۔اقتدار کے لئے ملکی سلامتی دا پر نہیں لگانی چاہیے۔سیاسی اور مذہبی رہنماں کے ماضی کے بیانات ،انکے ویثرن کے عکاس ہیں۔ انکے لئے لڑنا، مرنا، جھگڑنا دانشمندی نہیں بیووقوفی ہے۔
ڈی چوک میں وزیراعظم کا جلسہ جنرل باجوہ کی ٹیم کے لئے پاور شو ہے ۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ۔ تو یہی پی ٹی آئی فوج کو گالیاں دیتی نظر آئے گی۔سیاسی رہنما مفاد کے لئے ملکی سلامتی دا پر لگانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔سیاسی جوڑ توڑ اور ملاقاتیں اپنے عروج پرہیں۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے علاوہ ،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف بھی قرارداد لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالات کی سنگینی نے ملک میں عدم تخفظ پیدا کردیا ہے۔ وزیراعظم نے لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ووٹ آف نو کانفیڈینس کے موقع پر دس لاکھ کھلاڑیوں کا عدم اعتماد کی ناکامی پر جشن منانے کی تیاری کر لی ہے۔
تحریک عدم اعتماد ابہام کا شکار ہے۔
اپوزیشن اور حکومتی جماعت اپنی برتری کا دعوی کررہی ہیں۔
وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پانچ ووٹوں والے وزارت اعلی کے لئے بلیک میل کررھے ھیں۔حالانکہ ایم کیو ایم اور چوہدری برادران کے پاس عدم اعتماد کے خلاف ووٹ دینے کیعلاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ایم کیو ایم پارٹی دفاترزکھلنے کے وعدہ پر بالآخر حکومت کو ووٹ دی گی ۔
ایم کیوایم کی اہمیت ہمیشہ کیطرح بڑھ گئی ہے۔
تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ھوگئی تو عمران خان پنجاب اور سرحد اسمبلی توڑ کر عوام آسکتے ہیں۔ کرشماتی شخصیت کیحامل ھیں ۔ کراڈ کو pull کر سکتے ہیں۔پاکستانی عوام چونکہ شخصیت پرستی پر بیس کرتے ہیں ۔ ٹائیگرز وزیراعظم عمران خان پر جان چھڑکتے ہیں ۔پی ٹی آئی کا ورکر متحرک ہو چکا ہے۔
اسٹبلشمنٹ موجودہ حالات میں خاموش نہیں رہ سکتی۔ن لیگ پر اسٹبلشمنٹ کا اعتماد نہیں ۔اس لئے عمران خان کے سر پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کرینگے ۔وزرا کا کہنا ہی کہ یہ تحریک بیرونی سرمایہ سے چلائی جارہی ہے۔
ایشین پریس کا کہنا ہے کہ سی آئی اے، موساد اور را ۔نے عمران حکومت کے خاتمے کے لئے بہت بڑی فنڈنگ کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جوبائیڈن سے عمران حکومت کے خاتمے میں مدد کی اپیل کی ہے۔
تحریک عدم اعتماد بے وقت کی راگنی ہے، یہ کامیاب ہو یا ناکام، اس نے پی ٹی آئی کی صفوں میں کھلبلی پیدا کردی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کنفیوز ہیں۔
پارٹی پوزیشن کسی کی بھی واضح نہیں۔
وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں نظام بدلنے آیا ہوں۔وزیراعظم صاحب
کیا نظام ایم کیو ایم کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے جنہیں آپ دہشت گرد قرار دے چکے ۔جو تیس سال سے اقتدار میں ہیں ۔چوہدریوں کے ساتھ بدلا جاسکتا ہے جنہیں آپ خود ڈاکو کہتے ہیں۔جو گزشتہ پینتیس سال سے اقتدار میں ہیں۔ یا پھر انکے ساتھ بدلا جاسکتا ہے جو گزشتہ تین حکومتوں میں مزے کرتے رہے۔ اب وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔اب وہ کونسا نظام بدل لینگے۔ پی ٹی آئی میں کرپٹ لوگ بکنے کے لئے تیار ہیں۔
عمران خان کے بقول بیس کروڑ میں ایم این اے بک رہا ہے۔الیکٹیبلز اور لوٹے ٹکٹ کے وعدہ پر اپوزیشن کو ووٹ ڈالیں گے۔ ایم کیو ایم پونے چار سال وزارتوں کے مزے اور حکومت پر بے اعتمادی کا اظہار کر رہی ہے۔اور تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کو لارے دی رہی ہے۔
لیکن وہی ہوگا جومنظور باجوہ ہوگا۔خلائی مخلوق کی ایک کال پر پھڑپھڑانے والے سبھی جانور ڈھیر ہو جائینگے اور اسطرح تحریک عدم اقتدار اپنے اختتام کو پہنچے گی۔
پاکستانی سیاست ہمیشہ سے مار دھاڑ ،اکھاڑ پچھاڑ اور لڑائی جھگڑوں کی نظر رہی ہے۔ شائد ہی کسی حکمران نے پانچ سال اقتدار میں پورے کئے ہوں۔ ہر دور میں الیکٹیبل بک جاتے ہیں، ہم خیال اور لوٹے بن جاتے ہیں۔ کیا ایسے ضمیر فروش ملکی تقدیر کے فیصلے کرنے کے مجاذ یا اسمبلی میں بیٹھنے کے قابل ہیں ؟
کیا ووٹ بیچنے والے دوبارہ منتحب ہونے کے قابل ہیں ؟کارکن ذاتی تعلقات اور رشتہ داریوں پر پارٹی کو ترجیح نہ دیں ۔ ان سیاستدانوں کی اکثریت ضمیر فروشوں کی ہے جنہیں صرف اقتدار سے غرض ہے، ان سے چھٹکارا صرف ایماندار قیادت کے انتخاب سے ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here