عمران حیدر نے اپنے زوم پروگرام میں کہا تھا”دنیا کا بہترین مذہب دنیا کے بدترین لوگوں کے پاس ہے۔ایک اور صاحب نے چینل24پر آکر تجویز پیش کی”قرآن کا اردو ترجمہ کرکے بانٹا جائے”اسکا فائدہ؟۔جب کہ ملک میں جگہ مساحد ہیں۔دونوں باتوں کا جائزہ لیں تو پہلی بات حقیقت کا روپ اختیار کر چکی ہے۔بار بار لکھ چکے ہیں اس جمہوریہ پاکستان کی حقیقت کہ اکثریت اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کفر سے بدتر ہوچکی ہے۔اور منافقت کی حدیں پاکر چکی ہے حالیہ سیاست کے بھونچال میں جہاں مخالف اور بدنام زمانہ پارٹیوں اور انکے محافظوں نے جو جملوں کا تبادلہ خیال کیا ہے وہ شرافت اور اخلاق کی حدیں پار کر گیا ہے۔پہلے عمران کو لیتے ہیں کہ وہ شروع دن سے حکومت کی مخالف پارٹیوں کو سنا رہے ہیں، دھمکیاں دے رہے ہیں۔یہ کر دونگا وہ کر دونگا اور انکے ناتواں جاہل وزیر بھی یہ بھی بولی بول رہے ہیں۔میڈیا ہمیشہ کی طرح بات کا بتنگڑ بنا کر مرچ مصالحہ کے ساتھ اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔حامد میر پھر میدان میں ہے اور بدلے لے رہا ہے دوسری طرف زرداری اور اسکا بیٹا اور بیٹی بھی سیاست کے اس گندے کھیل میں چھینٹے اڑا رہے ہیں۔عمران خان بوکھلا گیا ہے لگتا ہے وہ بند گلی میں کھڑا ہے۔پچھلے ماہ ایمپائر کو دھمکی دینے کے بعد نتیجہ بھگت رہا ہے کہ عمران کے سر سے دست شفقب اٹھا کر مولانا فضل الرحمان زرداری اور شہباز شریف کے سر پر رکھ دیا ہے۔بظاہر توایسا ہی نظر آرہا ہے۔اس ساری افراتفری میں عوام کو بدتر حالات کا سامنا ہے۔مہنگائی کے عذاب نے انہیں بے زار کر رکھا ہے۔مہنگائی تو دنیا بھر میں آسمان سے باتیں کر رہی ہے پاکستان میں مہنگائی پچھلے نااہل اور ڈاکو حکمرانوں کی بے ایمانی کا نتیجہ ہے حکومت چلانے کے لئے قرضے لینے کے بعد ایک ایک طوفان بدتمیزی جاری ہے۔لیکن امریکہ میں مہنگائی کیوں؟سوالیہ نشان ہے تو مندرجہ ذیل میں اسکے اسباب بتاتے چلیں۔کووڈ19کے بعد چیزوں کی قلت ہوئی باہر سے مال آنا بند ہوا۔فیکٹریاں بند رہیں آفس بند کر دیئے گئے اور لوگوں کو گھر سے کام کی اجازت دے دی گئی پھر حکومت نے لوگوں کی جیبوں میں ضرورت سے زیادہ ڈالرز بھرے کہ بہت سی اکثریت کاموں پر واپس نہیں پہنچی۔اور تاجروں اور کارپوریشنز نے یہ جواز بنا کر ہر چیز پر دام بڑھا دیئے۔سب سے زیادہ منافع کمانے والے کار ڈیلر اور کمپنیاں ثابت ہوئیں۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ کاروں میں استعمال ہونے والے چپس(CHIPS)ناپید ہیں۔پارٹس چین سے آنا بند ہوگئے ہیں یا بندرگاہوں پر کنٹینرز میں بند پڑے ہیں۔لیکن جو اسٹاک تھا اس کی منہ مانگی قیمتیں وصول کی گئیں اور کی جارہی ہیں ہمیں ایک ڈیلر کے پاس رش دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے لوگوں کے پاس اس سے پہلے کوئی کارنہ تھی۔آپ سوچ سکتے ہیں ہندوئی کیSUUکی لیز چھ سو بیس ڈالر مہینہ دے کر ضرورت مندوں نے کار وصول کی۔یہ دوسرے معنوں میں بلیک مارکیٹنگ ہے کہ چیز دستیاب ہے لیکن تاجر منافع خوری میں پڑا ہے دوسرے الفاظ میں لالچی ہوگیا ہے۔امریکہ میں کنسٹرکش سے لے کر ریستوران تک کا بزنس مہنگے سے مہنگا ہوگیا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سب سے زیادہ بدمعاشی یا بے ایمانی پاکستانی دوکانداروں نے دکھائی ہندوستانی بھی پیچھے نہیں رہے۔بکرے کا گوشت نیویارک میں پورا بکرا لینے پر14ڈالر پونڈ جب کہ امریکی سپر مارکیٹ میں گوشت کے بھائو10سے15فیصد بڑھے تھے ہماری مراد غیر ہلال گوشت سے ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بکرے یا مرغی کو ذبیحہ کرنے میں کشا خرچہ آتا ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور ذبیحہ ہول سیل تاجر مسلمان ہونے کے ناطے مصنوعی مہنگائی پیدا کر رہے ہیں آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ریستورانت میں ایک نان کی قیمت ڈالر تھی وہ بڑھا کر ڈیڑھ ڈالر کر دی گئی۔جب کہ آٹا تھوڑا مہنگا ہوا تھا۔جواز یہ تھا کہ بجلی اور گیس کے بل بڑھ گئے ہیں۔اور ٹرک والے سامان لانے کے زیادہ چارج کر رہے ہیں ابھی رمضان شروع ہونے والے ہیں اور پھر دیکھئے ضرورت کی اشیاء ہول سیل پر اگر5سینٹ مہنگی ملے گی تو اسٹور والے25سے50سینٹ بڑھا دینگے کسی نے کہا ہندو اور مسلمان امریکہ میں رہ کر بھی چوری کرتا ہے تو یہ بھی کہنا پڑتا ہے ان دو ملکوں میں مذہب سب کے پاس ہے لیکن مذہب کو فالو کوئی نہیں کرتا۔
جال ہی میں روس نے یوکرائن پر حملہ کردیا اور ساتھ ہی روس کا حقہ پانی بند کردیا۔یورپ اور امریکہ نے لیکن ہمارے کہنے کے مطابق اصل ہیں حقہ پانی امریکن کا بند ہوتا نظر آرہا ہے۔پیٹرول کی قیمت اس وقت اوسطً ساڑھے چار ڈالر سے پانچ ڈالر گیلن پر ہے جب کہ امریکن گیلن3.78لٹر کا ہے۔یہ ایک مصنوعی قلت ہے پورے امریکہ میں پیٹرول آسانی سے دستیاب ہے روس کے علاوہ بھی امریکہ دوسرے ملکوں سے تیل خریدتا ہے لیکن وال اسٹریٹ کے لالچی بروکر ایک بار پھر میدان میں بازی مار چکے ہیں اور امریکہ کی معیشت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں کوئی روک تھام نہیں فری مارکیٹ ہے۔جمہوریت کا یہ ہی حسن ہے جو امریکہ کی ڈکشنری میں کیپیٹلزم کہلاتا ہے۔اور دولت سمٹ کر اس دفعہ بھی امریکی سرمایہ دار اور بڑی کمپنیوں کے آنگن میں گر رہی ہے۔
یہ بھی کہتے چلیں امریکہ روس کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔نیٹو جو یورپین اور امریکیوں کی فوج ہے۔روس کے دروازے پر پہنچنا جانتی ہے روس اپنی سلامتی چاہتا ہے ایک گورکھ دھندا ہے۔جس طرح باجوہ صاحب چھڑی لئے سیاست دانوں کو ہنکال رہے ہیں اسی طرح بڑی طاقتیں اپنے عوام کو کنگال کرکے گنتی کے سرمایہ داروں کو بھر رہی ہیں۔سیاستدانوں خاموش ہیں یا ناتواں کہ وہ اپنے گھر میں مہنگائی کے طوفان پر قابو نہیں پاسکے ڈیموکریٹک پارٹی کبھی بھی قانون کو لاگو کروانے میں مضبوط نہیں تھی۔کیا عجیب مذاق ہے کہ مڈل ایسٹ میں کچھ ہو، ایران دھمکی دے دے روس یوکرین پر چڑھائی کردے امریکہ میں دوسرے دن پہلی خبر یہ ہوگئی۔تیل کی قیمتیں ایکسو پچاس ڈالر تک جائیگی۔اللہ خیر کرے امریکیوں پر نومبر میں مڈٹرم الیکشن ہیں۔بائیڈن کی مقبولیت کا گراف نیچے گر رہا ہے۔یعنی32فیصد کہا جارہا ہے ریپبلکن پارٹی اکثریت سے جیتے گی جس کے آئندہ انتخابات میں ٹرمپ امیدوار ہونگے۔اگر قانون نے راستہ نہ روکا ان سب باتوں کے باوجود ایک لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم نے اپنے تجزیہ میں کہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں تبدیلی چاہتا ہے۔ہمارا کہنا ہے امریکہ کے لئے یہ بات انہونی یا ناممکن کبھی نہیں دنیا بھر میں امریکہ یہ کرتا رہا ہے سوال یہ ہے کیا امریکی عوام خوشحال ہیں۔جو اب ملے بالکل نہیں اور ہوں بھی کیسے جب ہر امریکی پر قرض کا بوجھ ہو اور منافع خوری عام ہو کوئی پرسان حال نہ ہو۔
٭٭٭