علم کی افادیت واہمیت!!!

0
304

چنانچہ جب وہ شخص آیا اور اس سے ولی کامل نے اس کے مشہور کمال کی تصدیق چاہی تو وہ برملا کہنے لگا کہ جناب! یہ بالکل سچ ہے کہ میں روزانہ دیدار الٰہی سے بہرہ ور ہوتا ہوں۔میرا خدا مجھ پر اتنا مہربان ہے کہ روز بعد عصر سمندر میں اس کا تخت بچھتا ہے اور اس پر وہ جلوہ فرما ہوتا ہے۔یہ سن کر ولی کامل نے فوراً وہاں موجود ایک عالم دین سے فرمایا کہ ذرادہ حدیث سنائیں جس میں رسول اللہۖ نے فرمایا کہ شیطان روزانہ عصر کے بعد اپنا تخت سمندر میں بچھاتا ہے۔جوں ہی اس عالم دین نے حدیث رسول پڑھی تو اس شخص کی کیفیات وگرگوں ہوگئیں اور وہ انتہائی نادم ہوا، اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور یہ کہتا ہوا کہ حیف صد حیف اب تک میں شیطان کو خدا سمجھتا رہا، اس کی عبادت کرتا رہا اور اس کو سجدے کرتا رہا جنگل کی طرف رواں دواں ہوگیا۔
واضح رہے کہ اس دنیا میں بیداری کی حالت میں سر کی آنکھوں سے دیدار الٰہی غیر ممکن نہیں بلکہ محال ہے۔یہ صرف اور صرف ہمارے آقا ومولا جناب محمد رسول اللہۖ کا طرہ امتیاز وصف ہے کہ آپ نے بعد نزول وحی اور قبل ہجرت مدینہ رجب المرجب کی ستائیسویں شب کو بحالت بیداری جسم وروح کے ساتھ اپنی نورانی آنکھوں سے رب کائنات کا دیدار فرمایا۔آپ کی معراج جسمانی سے متعلق علامہ زرقانی نے ایک دو نہیں بلکہ پینتالیس صحابہ کرام کے اسماء مبارکہ اپنی تصنیف لطیف میں درج فرمائے ہیں جن سے معراج جسمانی والی حدیثیں مروی ہیں۔علاوہ ازیں شفا شریف کی پہلی جلد میں مندرج ہے کہ جب رئیس المسفرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے آپ کی معراج جسمانی کے تعلق سے پوچھا گیا تو آپ نے بڑے والہانہ اور پرجوش انداز میں فرمایا کہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے لیکن ہم بنی ہاشم کہتے تھے اور کہتے رہیں گے کہ یقیناً رسول اکرمۖ رب کائنات کے دیددار سے ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ شرف یاب ہوئے۔
ہاں بات یہ چل رہی تھی کہ روزانہ بعد نماز عصر ابلیس سمندر میں اپنا تخت بچھاتا ہے اور جملہ شیاطین وہاں جمع ہوتے ہیں۔ابلیس لعین ودیگر شیاطین سے پوچھتا ہے کہ یہ بتائو کہ تم میں سے کس نے آج کون سا کار نمایاں انجام دیا ہے۔کوئی کہتا ہے میں نے فلاں فلاخ کو شراب پلائی تو کوئی کہتا ہے کہ میں نے اتنوں کو زنا جیسے فعل قبیح میں مبتلا کردیا مگر جب کوئی شیطان یہ کہتا ہے کہ میں نے فلاں طالب علم کو آج مدرسہ جانے سے روک دیا اور اس کو حصول علم سے باز رکھا تو یہ سن کر ابلیس لعین مارے خوشی کے اپنے تخت سے اچھل پڑتا ہے اور اس کو اپنے سینے سے لگا کر انت انت یعنی تو نے بہت بڑا کام کیا تو نے بہت عظیم کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہہ کر خوب شاباشی دیتا ہے۔اس کی تعریف وتوصیف میں آسمان کے قلا بے ملا دیتا ہے(جاری ہے)۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here