قارئین وطن! ہمیں ہے حکم اذان لیکن جی ایچ کیو راولپنڈی سے لے کر دنیا کے قریہ قریہ میں آباد پاکستانیوں کے گھروں تک خوف کا کرنٹ صرایت کر چکا ہے کہ بولنے لکھنے اور سوچنے والوں کو حکم ہے کہ ہاتھ ہولا رکھو ورنہ بچو تمھارے ساتھ بھی اور تمھارے گھر والوں کے ساتھ بھی وہی حشر برپا ہو گا جو عمران خان کے چاہنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے مرد تو مرد ماں بہن بیوی بچی جی ایچ کیو کی بربریت سے محفوظ نہیں ہیں، اللہ اللہ یہ پاکستان ہے سارا دن ساری رات سوشل میڈیا پر ایسی ایسی ظلم کی داستاں سنائی اور دکھائی جاتی ہے کہ نیند میں بھی ایسے بھیانک خواب آتے ہیں کہ لوگ بتاتے ہیں کہ خود گھر والے یا ان کے بچے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دھاڑے مار کر رونا شروع کر دیتے ہیں کہ جیسے فوجی ان کے گھر میں گھس آئے ہیں اور ہمیں برہنہ کر کے زدوکوب کر رہے ہیں اتنا خوف پاک فوج سے جس کی سلامتی کے لئے ہر وقت ہاتھ اٹھتے تھے، ہم اپنے شہیدوں اور غازیوں کے لئے گاتے نہیں تھکتے تھے لیکن کس آسیب کا سایہ ہے کہ ایک شخص جس کو دنیا مانتی اور جانتی ہے کہ وہ پاکستان کی غیرت کا نشان ہے عمران خان اس سے اتنا خوف کہ انہوں نے سالہ فوجی وقار کو مافیا کی لالچ میں آ کر سب روند ڈالا ہے ۔ میں نے کل رات نیند میں ایسا برا خواب دیکھا کہ ہمارے جی ایچ کیو پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ہو گیا ہے اور پاکستان فلسطین بن گیا ہے اور میں قاید اعظم کو رو رو کر بلا رہا ہوں کہ قائد ہمارے ملک پر قبضہ ہو گیا ہے اور ہماری فوج کہاں ہے یہ اسرائیلی ہمیں مار رہے ہیں اور میں نے زور زور سے رونا شروع کردیا کہ میرے گھر والے جاگ گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہوا ہے میں نے ان کو بتایا کہ میں نے بہت برُا خواب دیکھا ہے کہ ہمارے جی ایچ کیو پر اسرائیلی آرمی کا قبضہ ہو گیا ہے، گھر والوں نے سمجھایا کہ یہ تم جو سارا دن سوشل میڈیا پر پاکستان میں ہونے والی فوجی بربریت دیکھتے رہتے ہو یہ اس کا نتیجہ ہے جا اور کلمہ پڑھ کر آرام سے سو جا ایک طرف حکم اذان ہے دوسری طرف ہاتھ ہولا رکھنے کی تلقین اب ایسے خوابوں کے بعد تو قلم وہی لکھے گا جس ضرب کو وہ دل پر محسوس کریگا ۔
قارئین وطن! میرا نہ تو پی ٹی آئی سے کوئی تعلق ہے نہ میں ان کا ممبر ہوں نہ عمران خان سے ملنے کی کوئی تمنا نہ کسی قسم کی ستائیش میں صرف اس کا فین ہوں کہ میری سالہ سیاسی سوجھ بوجھ کی زندگی میں پاکستان کو استبدادی پنجوں سے آزاد دیکھنے والا پہلا لیڈر دیکھا ہے جب یہ سیاست میں آیا تھا تو میں بھی اس کو ایک کھلنڈرا ہی جانتا تھا لیکن وقت اور اس کے عزم نے ثابت کیا کہ نہیں یہ وہی ہے ج I’m س کے لئے میرے مرشد اقبال نے کہا تھا بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا عمران خان نے / سالوں میں اپنی سیاست کا لوہا اپنے کیریکٹر سے منوایا میں اس کے اس عزم کے ساتھ ہوں کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے کسی کا غلام نہیں پچاس سال غلاموں کی صحبت میں گزار لئے ہیں آخری سانسیں ہیں آزادی کی فکر میں تو جی لوں روس کے مشہور دانشور میکسم گورکی اپنی کتا ب ماں میں لکھتا ہے کہ اگر کسی شخص کو زنجیروں میں جکڑ دو اور پابند سلاسل کر دو اور اگر وہ سوچ لے کہ میں آزاد ہوں تو وہ آزاد ہوتا ہے بابا ہمیں اس تصور میں ہی جینے دو کہ ہم آزاد قوم ہیں مت ہاتھ ہولا رکھنے کی تلقین دو میرا باپ سردار ظفراللہ بھی آزادی کی تمنا میں جابروں اور آمروں سے لڑتا لڑتا مر گیا میں بھی رزق خاک ہو جاں آزادی کی لگن میں کوئی پرواہ نہیں میں بھی پاکستان اور کروڑ انسانوں کو آزاد دیکھنا چاہتا ہوں اس لئے اس آزاد شخص جس کو عمران خان کہتے ہیں کا فین ہوں کہ اس نے اپنے ہاتھوں میں آزادی کی شمع تھامی ہوئی ہے ۔
قارئین وطن ! اے میرے اللہ جرنل عاصم منیر کے اور اس کے رفقا کے دلوں میں اپنا خوف اجاگر کر دے جس کو وہ بھول گئے ہیں کہ ایک دن تیری عدالت میں بھی کھڑا ہونا ہے اس کو یہ معصوم عورتوں اور بچیوں پر ظلم بند کرنا ہو گا یہ تکبر یہ کمانڈری یہ دولت نہیں کام آنے والی بقول شاعر!
کتنے منعم اس جہاں سے گزرے وقتِ رحلت کس کنے زر تھا
آخر جب وہ اس جہاں سے گزرا ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا
کوئی سمجھا ان جرنلوں کو کہ تاریخ یہ بتاتی ہے ظلم ہر دور میں مٹ جاتا ہے ہم نے اٹلی اور امریکہ میں مافیا کو دفن ہوتے دیکھا ہے غلطی سے میں نے اے آر وائی چینل آن کیا تو مریم صفدر کرائے کے آدمیوں کو اکھٹا کر کے عمران پر سب سے بڑا الزام یہ لگا رہی تھی کہ اس کے اپنے بچے ولایت میں ہیں اور لوگوں کے بچوں کو مرنے کے لئے یہاں چھوڑ دیا ہے میں اس کی شوریدگی کا مزا لوٹ رہا تھا کہ کتنی معصومیت سے ان بیچارے کرائے کے آدمیوں اور قوم کو بے وقوف بنا رہی ہے اپنے گریبان میں جھانک لیتی جو اپنے باپ اور بھائیوں کو بھی ولایت کی گلیوں میں چھوڑ آئی ہے اس باپ کو جو بھگوڑا ہے اور بیماری کے بہانے ملک سے فرار ہے جس کے لئے وہ لیول پلئینگ فیلڈ کا رونا دھاڑیں مار مار کرمانگ رہی ہے اس مکرو فن کی رانی کو تھوڑی سی تو شرم کر لینی چاہئے کہ کون گندے پانیوں میں غوطے کھا رہا ہے عمران یہ اس کا باپ ہم نے ان سالوں میں کئی لوٹے اور لوٹیاں گنگز پارٹی کا حصہ بنتے دیکھا یہ جتنے لوگ ہیں جو ترین کی جی ایچ کیو پارٹی میں شامل ہوئے ان میں بیشتر اور ان کے بزرگ سب یونینسٹ پارٹی کے ممبر ہوا کرتے تھے جب ان کو پتا چل گیا کہ جناح نے پاکستان بنا لینا ہے تو راتوں رات کود کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے یہ ان کا پرانا کھیل ہے اِدھر ادھر پھدکنا کل یہ کسی اور کے گلے میں ہار ڈال رہے ہوں گے میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ ان کی آنیا جانیاں بس دیکھو مریم کا باپ کہاں سے چھلانگ لگا کر آیا یہ تو عمران کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سیاسی کارپوریشن کی جگہ سیاسی پارٹی بنائی لیکن ہمارے جرنیلوں کو کب سیاسی پارٹی ہضم ہوتی ہے ان کو کاپوریشنیں قبول ہوتی ہیں جن کے ساتھ مل کر یہ بیرون ملک اربوں دولت کے انبار جمع کرتے ہیں سیاسی جماعتیں کب ان کو وارا کھاتیں ہیں عمران خان ان کی چوریوں اور چکاریوں کے درمیان ایک دیوار ہے یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ عوام اس مرد مجاہد کے ساتھ کھڑی ہے وہ وقت دور نہیں جب یہ جرنیل اور مافیا عوام کے سامنے اپنے گھٹنیں ٹیک دیں گے ابھی بھی وقت ہے کہ فوج کی ساکھ کو روندنے سے بچایا جا سکتا ہے کہ سینگروں کے بجائے عوام پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے ہر ذی شعور کا فرض ہے کہ حکم اذاں بجا لائیں ملک ڈوب رہا ہے اور خوف کے مارے کہتے ہیں ہاتھ ہولا رکھو ۔
٭٭٭