”آنکھوں کے اندھے نام نین سُکھ” ہمارے جنرلز!! !

0
41
کامل احمر

بچپن سے لے کر اب تک سنتے، پڑھتے اور یاد کرتے آئے ہیں اور ہر مسلمان جانتا ہے
”کُلُّ نفٍس ذائقَتہُ الموَت”
ہر کسی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور کسی مذہب میں اس کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں، عیسائی اور یہودی تو اپنے لئے موت کے بعد اپنی قبر کا انتظام کرکے رکھتے ہیں۔ اور آج کے پاکستان میں جو حکمران کر رہے ہیں لگتا ہی نہیں کہ انکے ذہنوں میں کوئی ایسی بات ہے یا انہوں نے سوچ رکھا ہے کہ موت آئے گی تو مر جائینگے ابھی سے کیوں پریشان ہوں اور اس سوچ کے نتیجے میں وہ من مانی کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہمیں بدنام نہ کرو۔ اور نعرے لگواتے ہیں ”افواج پاکستان زندہ باد” انہیں معلوم ہے کوئی پاکستانی ایسا نہیں جیسے انکار ہو۔ لیکن ڈرتے ہیں یہ کہتے کہ جنرلز زندہ باد کہ انہوں نے ظلم اور ناانصافی کی تاریخ لکھ دی ہے اور جاری ہے انکے ساتھ سیاستدان ملے ہوئے ہیں یہ وہ ہی ہیں جب یہ انکے خلاف جاتے ہیں تو انکی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہیں، ان کے نزدیک بدی اور نیکی میں فرق نہیں شرپسندی انکا شیوا ہے اور یہ سب مسلمان ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خدا رحمان اور رحیم ہے کچھ بھی کرو معاف کردے گا اور اگر شبہ ہوا تو رسول کریم کی سفارش کام آئیگی اس لئے وہ آزاد ہو کر فتنہ انگیزی کرتے ہیں۔
اوپر لکھی ساری باتوں کا ثبوت وہ دے چکے ہیں امریکن اسٹائل یا شیطان کا پرتو بن کر وہ9مئی کا ڈرامہ رچاتے ہیں کہہ سکتے ہیں سجاتے ہیں۔ اور باز نہیں آتے جب کہ سوشل میڈیا، لمحہ بہ لمحہ انکی پول کھول رہا ہے۔ انہیں کون تہذیب یافتہ یا انصاف پسند کہے گا جہاں صحافیوں کو اغوا کرکے کہا جاتا ہے ہمیں معلوم نہیں کیا خوب جب کہ پولیس، انکی اور فوج ان کی، رینجرز انکی حکومت ان کی تو کیا ہندوستان نے اغوا کیا ہے نہایت ہی شرمناک فعل اور یہ منگول سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ جنہوں نے بغداد میں گھس کر لائبریریوں کو آگ لگا دی تھی یہ پچھلے٧٥ سال سے عوام کو بے شعور کر رہے ہیں یہ وہ ہیں جو نعوذ باللہ قرآن پاک کے منافی ہیں۔ سورة بکرا میں الہ تعالیٰ کہتا ہے۔
”ہم نے کافروں پر شعور کے دروازے بند کردیئے” اور اب غور طلب بات ہے کہ کس نے کس پر دروازے بند کئے ایک حافظ قرآن کمانڈر انچیف بیرونی اشارے پر ایک بڑی بلکہ سب سے بڑی پارٹی کو جس کی مقبولیت اسی فیصدی ہے راتوں رات ختم کردیتا ہے ڈرا دھمکا کر گھروں میں رات کے وقت گھس کر ماں بہن، بیٹیوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور پھر تیزی کے ساتھ پارٹی کے عہدیدار میڈیا پر آکر بیان دیتے ہیں ہماراPTIسے کوئی تعلق نہیں اور ہم سیاست سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور اسکے لیڈر کو نظر بند کردیا جاتا ہے۔یہ وہ بہادر جنرلز ہیں جو دشمن کے سامنے سرنگوں ہو کر ہتھیار ڈالتے ہیں یہ وہ ہیں جو ملک کی حفاظت اور عوام کی جان ومال کی نگرانی کے لئے مامور کئے جاتے ہیں۔ اور پھر اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں پر زندگی تنگ کرتے ہیں اور آنکھیں دکھاتے ہیں فوج کو بدنام نہ کرو یہ نہیں کہتے ”جنرلز کو بدنام نہ کرو” ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ کس کے ایجنڈے پر ایسا کر رہے ہیں ایک قول ہے”ہماری بلی ہم سے ہی میائوں” اور عقل سے اتنے کورے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان ہی کو ذلت ملے گی ان کا ڈھول سپاہیا ”پول سپاھیا” بن جائے گا۔ وجاہت خان جاتے پہچانے صحافی اور تجزیہ کار ہیں کبھی انہوں نے افواج پاکستان کے لئے ان کی بہادری اور سرحدوں پر سخت زندگی پر ڈاکومنیٹریاں بنائی تھیں لیکن پچھلے ہفتہ انکی یہ پوسٹ دیکھ کر تعجب نہیں ہوا کہ حقیقیت یہ ہی ہے جو وجاہت نے لکھا ہے ملاحظہ ہو۔
”پاکستانی عوام کو آپ پر فخر نہیں بلکہ آپ سے ڈر لگتا ہے”
انکا یہ جملہ پوری کہانی بیان کر رہا ہے جو عاصم منیر اور انکے سہولت کاروں (سیاست داں) نے کیا ہے ہم کوئی نئی بات نہیں لکھ رہے اور ایک لکھاری کا قلم دماغ کے تابع ہوکر لکھتا ہے انہوں نے وہ ہی کیا ہے جو منگول کرتے تھے۔ دانشوروں اور علم کی شمع جلانے والوں کو موت کے گھاٹ اتارتے تھے بہت سے صحافیوں نے ملک سے فرار ہو کر جان بچائی اور اب وہ باہر بیٹھ کر سوشل میڈیا پر حکومت اور جنرلز کے کرتوت بتا رہے ہیں۔
فزکس میں ایک چیپٹر ہے سائنسدان نیوٹن کے حرکات سے متعلق تین قانونوں کا اور اسکا تیسرا قانون پاکستان میں ہونے والے حالات کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ کہ جب بھی کوئی دوسرے پر جس قوت سے وار کرتا ہے دوسرا اسی قوت سے پہلے کو جواب دیتا ہے”
اور ابھی جواب ملنا باقی ہے جس تیزی سے عوام کی قوت کو دبایا گیا ہے اس کا جواب آنا باقی ہے یہ ہی حضرت عمر کا قول ہے کہ کوئی تمہارے گال پر تھپڑ مارے تم اس کا جواب اس سے زیادہ طاقت سے دو وقت کے ساتھ اس کا تعین ہوتا ہے حضرت علی کے زمانے میں یہ قول بدل گیا تھا لیکن سائنس اپنی جگہ حقیقت ہے۔ سائنس خدا ہے لہذا اس سے زیادہ قوت سے اس کا جواب آئے گا۔
عاصم منیر کے لئے سرخرو ہونے کا موقعہ تھا کہ اپنے آقائوں کو ہاں کرکے وہ کام کرتے جو پاکستان کے لئے بہتری کا تھا لیکن ایسا کرنے میں سارے جنرلز کا مستقبل دائو پر تھا کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ لندن، فرانس دبئی میں اپنی بیگمات کے ساتھ عیاشی کیسے کرتے۔ ہمیں پچھلے دنوں وائرل ہونے والے ویڈیو نے جو پیرس میں باجوہ اور انکی بیگم کا ہے جس میں کوئی افغانی انہیں مادرزاد سنا رہا ہے نہایت ہی شرمناک ہے تو ہم پوچھنا چاہتے ہیں ان دانشوروں سے اور جنرلز کے رشتہ داروں اور قریبی حلقہ سے کہ کیوں عوام انہیں گالیاں دے رہے ہیں۔ کیوں روزانہ کی بنیاد پر نوازشریف کی لندن رہائش کے اردگرد پاکستانیوں کا گھیرا لگا رہتا ہے اور یہ سب کچھ دیکھ کر کیوں موجودہ حکومت پر قابض غیر قانونی افراد ان باتوں سے سبق نہیں سیکھتے۔
اور ان صحافیوں اور میڈیا کے مالکان سے ایک سوال اب جب کہ پابندی لگا دی ہے خبروں پر آزادی نہیں دکھانے کی تو کچھ دن کے لئے میڈیا بند کریں اور دبئی جا بیٹھیں کیونکہ عاصم منیر کے خوف سے آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کیا اقبال نے نہیں کہا ہے۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here