کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے تخلیق کار جرنیلوں کی کنگز پارٹی استحکام پاکستان پارٹی لانچ ہوچکی ہے۔ چلے ہوئے کارتوس اور چوں چوں کا مربہ اکٹھا ہوچکا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ان تلوں میں تیل کتناہے۔ قوم گزشتہ کئی سالوں سے انکی کارکردگی مختلف پارٹیوں میں دیکھ چکی ہے۔ پی ٹی آئی میں زیادہ ٹیں ٹیں کرنے والے اسٹبلشمنٹ سے مل گئے ہیں۔ عمران خان نے اگر الیکشن میں جانا ہے یا پارٹی کو بچانا ہے تو اسے جماعت اسلامی کی مدد درکار ہوگی۔پاکستان تحریک انصاف کو اگر دیوار سے لگایا گیا تو بغلیں بجانے والے ن لیگی یاد رکھیں آئندہ ٹارگٹ وہ ہونگے۔پیپلز پارٹی پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش میں ہے۔ جی ایچ کیو نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو گولی کرائی ہے۔ کنگز پارٹی بنوا کر اپنا ستر سالہ گندہ کھیل جاری رکھاہے۔مانگے تانگے لیڈرز کی کنگز پارٹی کہوتا پارٹی ثابت ہوگی۔ کنگ میکرز کمبل سے جان چڑوانے کی کوشش میں ہیں مگر کمبل ہے کہ جان چہوڑتا ہی نہیں۔ نئی پارٹی لانچنگ کے موقع پر افسردگی،پریشانی،ناامیدی اور رونے والی شکلیں دیکھ کر محسوس ہوا ہے کہ انہیں ۔پھینٹی لگا کر اور انکے کرتوت کی ویڈیوز دکھا کر لایا گیا ہے۔ لٹکے منہ،مرجھائے چہرے،افسردہ اور گھبرائے ہوئے سیاسی کھڑپینچ ذلیل ورسوا۔وہی ڈائریکٹر، ڈرامہ نگار،اداکار،میک اپ آرٹسٹ ، کیمرہ مین ۔وہی لکھاری ، وہی پٹاری،وہی مداری۔عوام بد حال۔ سیاستدان بے رحم اور دست و گریبان۔ نہ کسی کو مہنگائی کی فکر۔ نہ کسی کو عوام کی پریشانی کا درد۔ بے ضمیر،بے توقیر سیاستدانوں کی قلابازیاں۔جو بھٹو کے قاتل اور کل بینظیر کو وطن دشمن کہتے تھے، سیکورٹی رسک قرار دیتے تھے، وہ آج ملکر ، بزنس کء تباہی، ایکسپورٹ کی بربادی، اداروں کی تباہی ۔ ملک کی بربادی پر مامور ہیں۔ انہیں لانے والیڈاریکٹرز بخوشی اس بربادی کا نظارہ کر رہے ہیں۔ اگر یہ گماشتے ان برباد یوں کے ڈاریکٹر نہ ہوتے تو انہیں ہر سال ترانے بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ڈرامے نہ بناتے۔ کیا آرمی کا کام بے حیائی،بے غیرتی ،ننگا پن اور لبرل ازم کو پروموٹ کرنا ہے۔ ننگی ویڈیوز ریلیز کرنا ہے۔کیا آرمی کا کام کرپشن کو سپورٹ کرنا ہے۔ کیا آرمی کا کام اداروں کو ڈکٹیٹ کرنا ہے۔ کیا آرمی کا کام ہر چار سال بعد حمہوری حکومتوں کو اکھاڑنا ہے۔ ؟ کراچی میں پیپلز پارٹی زبردستی مئیر شپ پر قبضہ جما رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ ،الیکشن کمیشن اور اداروں کی نگرانی میں یہ گندہ اور گھنانا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ ساری بدمعاشیوں، ساری کرپشن ، سارے قبضہ گروپوں کے پیچھے کوئی جرنیل ملے گا۔ بحرہ ٹان ہو یا کوئء کمرشل پلازے ۔ انکے پیچھے بھی چھپا ایک جرنیل ھی ہوگا۔ ان بے شرموں کو مرتے دم تک آسائشیں، اور راحتیں مقدر ہیں۔ محنت کش، کسان ، مزدور اور عام عوام نے انکا کیا بگھاڑاہے۔ کہ ان غریبوں کو مہنگائی، اور عذاب کے دھکتے انگاروں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ڈرو اس وقت سے جب ھماری ساری جائدادیں یہاں رہ جایئں ۔ ناجائز دولت یہاں رہ جائے پلاٹ یہاں رہ جائیں ۔ عہدے ملیا میٹ ہو جائیں ۔جب غریبوں کی بدعائیں۔ مظلوم کی پکار ، کائنات بنانے والا سن لے۔ اور سمندر کی لہریں سن کچھ کا لے جائیں۔ زمین کی جنبش سب کو ملیا میٹ کردے۔خدارا مظلوموں پر رحم کریں ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں گدہوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سیاسی گدہے ہوں یا جانور گدہے یا پھر گدہے عوام جس لکیر کو پکڑتے ہیں بلا سوچے سمجھے اسی پر چل نکلتے ہیں۔ چالیس سال پہلے حبیب جالب نے جہل کا نچوڑ ان دس کڑوڑ گدہوں کو کہا تھا ۔ اب تو الحمد للہ ھماری تعداد چوبیس کڑوڑ ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ آیا ہم بھی گدہوں میں شمار ہونگے یا انسانوں میں۔ ؟ جنہیں ووٹ کی اہمیت کا ادراک نہیں ۔ جنہیں اپنے حقوق کے لئے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا نہیں آتا۔ وہ واقعی گدہے ہیں۔ انڈیا کے اندر سنئیر لیڈرز ملکر ملکی استحکام کے لئے کام کرتے ہیں۔ ہم ایکدوسرے کے خلاف نفرت کا بیج بوتے ہیں۔ فوج نے ان تمام کرپٹ عناصر اور جماعتوں کو بنایا۔ چند سال بعد اکھاڑ باہر کیا۔ یہ درندوں کی فوج ہے جو اپنے ملک اپنے عوام اور اپنی سرحدوں پر ڈاکا ڈالتی ہے۔ جو استحکام پاکستان کے لئے ، مستقبل کے لئے، اور نظریاتی ریاست کے لئے نقصان دہ ہے۔ پاکستان کی بقا کے لئے مضبوط نظریاتی جماعت کی ضرورت ہے جس کے افراد باکردار ، نا جھکنے اور نا بکنے والے ہوں۔ وہ قیادت صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اسکو سپورٹ کرنا ملک کو مضبوط کرناہے نظریاتی جماعت صرف جماعت اسلامی ہے۔ جس کے امیرسراج_الحق_کی_عیاشیاں !
دیکھئے ۔سراج_الحق_وزارتوں کاخوب مزا اٹھایا:
خیبر کا سینئر وزیر اور وزیر خزانہ بنتے ہی حکم جاری کیا کہ آج کے بعد
1:میرے آفس /ماتحت آفسزز میں ائیرکنڈیشنر نہیں چلے گا۔
2:میں کوئی پروٹوکول نہیں لوں گا
3:تمام ماتحت آفیشلز سرکاری کفائت شعاری کی ہدایات پر عمل کریں گے
4:کے پی کے سے سینما گھروں کے ہورڈنگز اور بورڈ اتار دیے جائیں۔
5:خواتین کی تصاویر کے ذریعے اشتہارات والے بورڈ اتاردیے جائیں
6:میرے گھر پر کوئی سرکاری سکیورٹی گارڈز نہیں ہوں گے
سراج الحق کی سفری عیاشیاں:
روات کے قریب ٹریفک بلاک تھی۔ایک بس والے کو پولیس والا گالیاں دے رہا تھا اور گاڑی کی باڈی پر ہاتھ ماررہاتھا کہ گاڑی پیچھے ہٹا ۔۔ پیچھے جھنڈی والے کی گاڑی ہے۔ سنتے نہیں ہو پیچھے وزیر کی گاڑی ہے۔
گاڑی میں بیٹھے ایک شخص نے سوال کیا یہ پولیس والا کیا کہتا ہے؟ ڈرائیور نے جواب دیا یہ کہتا ہے کہ پیچھے کسی وزیر کی گاڑی ہے۔ گاڑی ہٹا۔۔ اس شخص نے کہا اسے بو لو۔۔اس گاڑی میں بھی وزیر ہے یہ بھی وزیر کی سواری ہے۔ ڈرائیور کہنے لگا با با یہ گاڑی تو کسی وزیر کی نہیں میں کیسے کہوں؟ وہ شخص بولا اس میں KPKکا سینئر وزیر /وزیر خزانہ بیٹھا ہوا ہے۔اور وہ میں ہوں،سراج الحق۔۔ ڈرائیور اور لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ فرنٹ پر اچھی سیٹ پرآجائیں۔جواب دیا کہ بھائی میں جب بس سٹینڈ پہنچاتھا مجھے اسی نمبر کی سیٹ کا ٹکٹ ملا تھا لہٰذا میرا حق اسی سیٹ پر ہے پی ٹی آئی کیساتھ جائنٹ وزارتوں پر عیاشی کا واقعہ۔
ایک رکشہ پنجاب اسمبلی کے سامنے رکا۔مسافر ہاتھ میں بیگ اٹھائے اندر جانے لگا تو سکیورٹی والوں نے روک لیا۔کہا مجھے اندر جانے دیں منسٹرہوں۔جواب آیا منسٹر ایسے کدھر ہوتے ہیں بابا۔ پرویز الہٰی کو فون کیا۔تمہارا سکیورٹی والامجھے اندر نہیں چھوڑتا۔پرویز الٰہی ہنستے ہوئے خود گیٹ تک پہنچ گئے اور بولے آپ کے پاس گاڑی نہیں تھی ،فون کر دیتے میں گاڑی بھیج دیتا،بولے ،منصورہ آیا ہوا تھا وہاں سے رکشہ لیا اور یہاں آگیا کوئی مشکل نہیں تھی ورنہ فون کرلیتا !! سینئروزیرکی حیثیت سے اسلام آباد آنا تھا ،پرویزخٹک صاحب وزیراعلیٰ تھے کہنے لگے میرے ساتھ ہی آجائیں ۔جواب دیا کہ اگر بغیر پروٹوکول چلیں توآپ کے ساتھ چلتا ہوں،وزریر اعلیٰ صاحب نے پروٹوکول واپس کردیا ۔
جرمنی کا بطور وزیر خزانہ سرکاری دورہ: کارٹینیٹل اعلیٰ درجے کا ہوٹل بک تھا ۔ہوٹل کے مینجرسے استفسارکیاکہ کیا خرچہ جرمن حکومت اٹھائے گی۔جواب ملا نہیں پاکستانی سفارت خانہ ۔ اپنے ساتھیوں سے پوچھاکہ یہاں قریب کوئی اسلامک سنٹر ہے ؟ جی ہاں ہے۔ کتنادور ہے؟جوابافاصلہ بتایاگیا ۔بولے مینجر کو چابیاں واپس دے دو۔بکنگ کینسل کرو۔ میں غریب ملک کے غریب صوبے کا نمائندہ ہوں ،اس لیے یہاں نہیں ٹھہر سکتا۔ وفداسلامک سنٹر میں ٹھہرا۔سینکڑوں پاکستانیوں کے ساتھ ملاقاتیں اور باجماعت نمازیں پڑھنے کی عیاشیاں بونس میںاور بھی بہت سی اس منچلے کی عیاشیاں ہیں۔پوچھنے پر بتائی جاسکتی ہیں۔ قوم کو ایسے باکردار،ایماندار اور صالح قیادت چاہئے۔وقت ضائع نہ کیجئے،آپکے بچوں کا مستقبل انہی کے ہاتھوں محفوظ ہوگا۔
٭٭٭