واشنگٹن (پاکستان نیوز)روس نے طبل جنگ بجاتے ہوئے اپنی افواج کو یوکرائن میں داخل کر دیا، یوکرائن نے سرحدی علاقوں سے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر نا شروع کردیا ، بچے ، بزرگوں اور خواتین کی بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو رہی ہے ، امریکہ نے بھی اپنے شہریوں کو روس اور یوکرائن سے فوری نکل جانے کا حکم دے دیا ہے، جبکہ روس کی جانب سے انتہائی اقدام کے خلاف امریکہ سمیت یورپی ممالک نے سخت ترین اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں،یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیاں فوری نافذ العمل ہوں گی، اس سب تناظر کے دوران پاکستانی وزیراعظم کے دورہ روس کو بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے ، روس یوکرائن کیخلاف جنگ میں عالمی تنہائی کو دور کرنے کے لیے پاکستانی وزیراعظم کے دورہ کو اہم قرار دے رہا ہے ، یوکرائن نے آئندہ 30 روز کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ سے دنیا خطرات سے دوچار ہوگئی ہے ، امریکہ کے سینیٹرز نے یوکرائن کے لیے ایک بلین ڈالر کی فوری امداد کی ضرورت پر زور دیا ہے ، یورپی یونین نے روسی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جبکہ یوکرائن کے آزادی پسند ریاستوں کو تسلیم کرنے والے روسی سینیٹرز اور حکومتی عہدیداران کی یورپ میں جائیدادوں اور اثاثوں کو بھی منجمد کر دیا گیا ہے ، یورپی یونین نے عالمی جنگ کے خطرے کو بھانپتے ہوئے فوری اجلاس طلب کرنے پر زور دیا ہے جوکہ آئندہ دو روز میں متوقع ہے، ترک صدر طیب اردوگان نے روسی صدر پیوٹن کے جارحانہ اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انقرہ ایسی کسی بھی کاوش کا حصہ نہیں بنے گا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ملکوں کی طرف سے شدید ردعمل اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود روس کی پارلیمان کے ایوان بالا فیڈریشن کونسل نے متفقہ طور پر یوکرین کے باغیوں کے زیر قبصہ علاقوں میں نام نہاد آزاد ریاستوں کے ساتھ ‘دوستی اور تعاون’ کے معاہدوں کی توثیق کر دی ہے۔اس سے قبل روس کی پارلیمان کا ایوان زیرین ‘دوما’ ان معاہدوں کی توثیق کر چکا ہے۔پیر کو صدر ولادیمیر پوتن نے روس نواز باغیوں کے زیر قبضہ یوکرین کے مشرقی علاقوں میں خود ساختہ آزاد ریاستوں، ڈونیسک پیپلز رپبلک اور لوہانسک پیپلز رپبلک کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے دوستی اور تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔گزشتہ کئی ماہ سے روس کے صدر ولادیمیر پوتن یوکرین پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے بارے میں مغرب کے دعوؤں کی تردید کرتے رہے ہیں لیکن پیر کو انھوں نے یوکرین کے ساتھ امن معاہدے کو پس پشت ڈالتے ہوئے روس نواز باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی علاقوں میں امن قائم کرنے کا عذر پیش کرتے ہوئے روسی فوج کو ان علاقوں میں داخل ہونے کا حکم جاری کر دیا ہے۔روس نے حالیہ مہینوں میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ فوجی یوکرین کی سرحد کے ساتھ تعینات کر دیے اور اب یوکرین کے دو خطوں کو آزاد ریاستیں تسلیم کر لیا ہے۔ اس کے بعد اگلا اقدام یورپ کے پورے ”سکیورٹی ڈھانچے” کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔صدر پوتن نے ‘قیام امن’ کے نام پر روسی فوجیوں کو یوکرین میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے لیکن کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ فوجی امن قائم کرنے کے لیے روانہ کیے گئے ہیںلیکن یوکرین نے اپنی فوج بنا لی ہے اور اس کے علاوہ روس کو عوام کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔امریکی فوج کے چیف آف سٹاف مارک ملی کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی تعداد کے پیش نظر صورت حال انتہائی ہولناک رخ اختیار کر سکتی ہے اور شہری علاقوں کے گلی کوچوں میں لڑائی ہو سکتی ہے۔روس کے رہنماؤں کے پاس دوسرے ممکنہ اقدامات میں غالباً یوکرین کی فضاؤں میں پروازوں پر پابندی، بندرگاہوں کا محاصرہ اور جوہری ہتھیاروں کی ہمسایہ ملک بیلاروس میں تعیناتی شامل ہو سکتے ہیں۔مغربی ملکوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کا لڑاکا دستوں کو یوکرین بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور روس کی کارروائی کے خلاف صرف اقتصادی پابندیوں ہی کا سہارا لیا جائے گا۔یوکرین بحران کے سنگین ہونے کے بعد برطانیہ نے آخر کار پانچ روسی بینکوں اور تین ارب پتی روسی شخصیات پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ روس کے مالیاتی اداروں اور اہم صنعتوں کو نشانہ بنائے گا، یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ مالیاتی منڈیوں تک روسی رسائی کو محدود کر دے گا۔ برطانیہ اور امریکہ نے روس کے خلاف مختلف پابندیوں کا اعلان کیا جس کے بعد یوکرین کے وزیر خارجہ نے اپنی ٹویٹ میں مغربی ممالک کو کہا کہ وہ ان کے شکرگزار ہیں اور چاہتے ہیں کہ صدر پوتن پر مزید دباؤ بڑھایا جائے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے روس کے خلاف تجارتی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے روس کی جانب سے اپنے فوجی دستے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر کنٹرول دو خطوں میں بھیجنے کے اقدام کو ‘بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی’ قرار دیا ہے۔روس پر مالی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اب مغربی ممالک کی جانب سے روس میں سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے دو روسی بینکوں وی ای بی اور روسی ملٹری بینک پر تجارتی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ امریکہ کی جانب سے اہم روسی شخصیات اور خاندانوں کے اثاثوں پر بھی پابندیاں متوقع ہیں۔ یعنی ان پابندیوں سے روسی معیشت کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ کیا جائے گا،امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ یوکرین کی مزید دفاعی امداد کرے گا جبکہ نیٹو اتحاد کے ممالک میں امریکی دستے بھیجے جائیں گے۔روس دنیا میں سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور قدرتی گیس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے،البتہ برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی اتحادی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ساتھ ساتھ روس پر دھمکیوں کی پابندی کا براہ راست اثر تیل کی قیمتوں پر پڑے گا۔عالمی ادارے فیڈلیٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر برائے سرمایہ کاری مائیک کری نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے زیادہ بڑھ سکتی ہے،دنیا میں استعمال ہونے والے تیل کے ہر دس میں سے ایک بیرل تیل روس کا فراہم کیا ہوا ہوتا ہے اور ان حالات میں تیل استعمال کرنے والے صارفین بہت متاثر ہوں گے۔