مجھے ایم کیو ایم کے عروج کے وہ دن یاد ہیں اور اکثر اوقات میں دوستوں کی محفل میں اس کا تذکرہ بھی کرتا ہوں کہ ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھا ہے ایک شخص کی آواز پر کس طرح کراچی بند ہو جاتا تھا، پاکستانی میڈیا میں کسی کی ایم کیو ایم کے خلاف خبر چلانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی اور راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے گھر کی چھت پر ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کی تقریب میں شریک 30 بندوں کی کوریج کے لئے 20 ڈی ایس این جیز(براہ راست نشر کرنے والے سیٹلائٹ گاڑی) گلیوں میں لگی ہوتی تھی۔
اس جماعت کا اپنا ایک نظریہ تھا اور اس نظریے کا جواب کسی سیاسی جماعت کے پاس مدلل نہیں ہوتا تھا،پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ جماعت اپنے خالق کو آنکھیں دکھانا شروع ہوتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ جماعت کسی سے آنکھیں ملانے کے قابل نہیں رہتی۔حالیہ دنوں میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ درپیش ہے۔
ایم کیوایم تو صرف اپنے خالق کو آنکھیں دکھاتے تھے، مگر پاکستان تحریک انصاف اپنے خالق کی آنکھیں نوچنے چل پڑی تھی، آج پھر اس جماعت کو اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی یہ خوبی ہے کہ وہ سیاسی میدان میں ہر صورت موجود رہتی ہے،، صرف نام اور چہرے بدلتے ہیں اور یہ سیاسی ونگ اسی طرح بنتے ٹوٹتے رہیں گے۔
اس لئے مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں عنقریب کسی ڈوبی ہوئی جماعت کو دوبارہ پر لگنے والے ہیں،،، یا اسٹیبلشمنٹ کے انڈوں سے کوئی نئی جماعت جنم لینے والی ہے، 9 مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے لیے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔
پاکستان تحریک انصاف کی سرپرستی کرنے والے سابق جرنیل اور ججز بھی 9 مئی کے واقعات کے بعد خود کو بے بس محسوس کر ہے ہیں۔ اب آئے روز پاکستان تحریک انصاف کے کسی نہ کسی رہنما کی جماعت چھوڑنے کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں تصویر کچھ یوں بنتی ہے کہ عمران خان کو اعتراض ہے کہ فوج ان کی پارٹی کو توڑ رہی ہے جبکہ سیاسی فوجی جرنیلوں کو شکایت تھی کہ عمران خان ان کی پارٹی پر قبضہ کرنے لگ پڑے تھے۔
٭٭٭