فائز اختر کیانی صاحب سلامت رہیں،مجھے فخر ہے کہ آپ گورڈن کالج راولپنڈی میں میرے شاگرد تھے۔ آج آپ کی فیس بک پر آپ کی اپنے چچا میجر مسعود اختر شہید(ستار ہ جرات)کے بارے میں تحریر پڑھ کر آنکھوں نے آنسوئوں سے وضو کیا۔ بہت ایمان افروز تحریر ہے۔ شہید نے جنگ چونڈہ اور کھیم کرن کے محاذ پر جس طرح جوان مردی اور بہادری سے بھارتی فوج کے ناپاک عزائم کو ناکام کیا بلکہ ان کے دانت کھٹے کر دیئے، وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔ وہ جیسوراں کے محاذ پر بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ لیکن بقول حافظ شیرازی
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جرید عالم دوامِ ما
قرآن مجید میں سور بقرہ میں ارشاد ہوا؛ جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں انہیں مردہ مت کہو،وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ،راہِ حق کے اِن شہیدوں کے بارے میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں!
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اِس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
آپ کے والدِ مرحوم و مغفور محمود اختر کیانی میرے دوست تھے۔ وہ نامور شاعر تھے۔ غزل گو اور نعت گو تھے۔ عاشقِ رسول صلم تھے۔ انہوں نے بطورِ تحفہ مجھے اپنی نعتوں کا مجموعہ عطا کیا اور ایک دوسری کتاب بہ عنوان میجر مسعود کیانی شہید : میرا بھائی مجھے دی تھی۔
میں یہ بات آپ کی توسط سے پاکستانی عوام اور نئی نسل تک پہچانا چاہتا ہوں کہ آپ کا خاندان کہوٹہ کا عظیم سیاسی، علمی اور ادبی خاندان ہے۔ آپ کے دادا جناب حسن اختر انگریز کے زمانے میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہ علامہ اقبال کے کلام کے شارح اور مفسر تھے۔ وہ علامہ اقبال کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ جس رات علامہ اقبال نے وفات پائی ، جو چند دوست ان کے کمرے میں موجود تھے، ان میں راجہ حسن اختر بھی تھے۔ آپ کے دادا کے تینوں بیٹوں ظہور اختر ، مسعود اختر اور آپ کے والدِ گرامی محمود اختر کا نام علامہ اقبال نے رکھا تھا۔ جو آپ کے خاندان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ آپ کے تایا کرنل ظہور اختر مرحوم و مغفور میرے بزرگ اور میرے دوست تھے۔ وہ ادیب اور دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ ہماری ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ وہ میری تحریروں اور اخباری کالموں کے مداح تھے اور اکثر مجھے فون کر کے میرے اخباری مضامین پر رائے دیتے اور تعریف کرتے۔آپ کے دادا قومی اسمبلی کے رکن تھے اور پاکستان مسلم لیگ (مغربی پاکستان)کے صدر بھی تھے۔وہ بہت بڑی سیاسی ، علمی اور ادبی شخصیت تھے۔ میرے دوست اور ممتاز ادیب و دانشور جناب ڈاکٹر طالب حسین بخاری کی کتاب بہ عنوان راجہ حسن اختر بحیثیت اقبال شناس میں اقبال اکادمی لاہور نے شائع کی ہے۔ بخاری صاحب نے بطورِ تحفہ یہ کتاب مجھے بھیجی تھی جس کے مطالعہ سے راجہ حسن اختر مرحوم و مغفور کی اقبال فہمی اور علامہ اقبال سے دوستی اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ کتاب میں بخاری صاحب نے ممتاز شاعر ترانہ پاکستان اور شاہنام اسلام کے خالق حفیظ جالندھری کے چند اشعار نقل کیے ہیں جو انہوں نے راجہ حسن اختر کے بارے میں کہے تھے۔ وہ درجِ ذیل ہیں!
دیدہ ور ہی جانتے ہیں معنء مرگ و حیات
دیکھتے ہیں زندہ ہے راجہ حسن اختر کی ذات
وہ حسن اختر نہ تھا، احساس تھا، احسان تھا
درد مند انسان تھا، معمارِ پاکستان تھا
یہ تو ہے خاکی لباس اس کا ، نہاں اِس خاک میں
ورنہ حسنِ مردِ مومن ہے عیاں افلاک میں
میری اللہ پاک سے دعا ہے کہ پاکستان کو میجر مسعود کیانی شہید جیسے سپوت عطا فرمائے جن سے پاکستان کی بقا ہے۔ آمین
٭٭٭