پنجابی کیوں نہیں نصابی !!!

0
43
رمضان رانا
رمضان رانا

بلاشبہ پنجابی زبان پاکستان کی سب سے بڑی زبان کہلاتی ہے جس کے بولنے والوں کی آبادی پچاس فیصد اور سمجھنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے لیکن پنجابی زبان کیوں نہیں نصابی ہے جس کے پیچھے سب بڑی سازش چھپی ہوئی ہے جس نے پنجابیوں کی صدیوں کا زبان کلچر تہذیب وتمدن تباہ وبرباد کردیا ہے تاکہ حملہ آوروں کی نسلوں، عربیوں، ایرانیوں، ترکوں، افغانیوں کا غلبہ رہے جو آج بھی پنجابی کی بجائے اپنے آپ کو حملہ آوروں کی نسلوں پر فخر کرتے ہیں ،دوسرے وہ لوگ ہیں جو ہندوستان سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے جن کی کوئی زبان نہ تھی جنہوںنے مقامی زبانوں کی بجائے اردو لشکری زبان کو ترجیح دی جس کی وجہ سے پنجاب میں آج نئی نسل پنجابی زبان کی بجائے اردو یا پھر انگلش بولتے نظر آتے ہیں تیسرے دشمن پنجاب کے جاگیردار، زمیندار، رسہ گیر، سابقہ نوابوں اور راجوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے پنجاب کو ذات پات میں بانٹ کر پنجاب کی اکثریتی آبادی کو غلام بنائے رکھا جو بیچارے صرف اور صرف ہاری کسان یا پھر پیشہ ور مزدور لوگ ہیں جن کی وہ زبان یا کلچر ہوتا ہے جو مالکان کا ہے جس کی وجہ سے ہی پنجاب کوئی قوم نہیں کہلاتی ہے جس طرح پاکستان کے دوسرے صوبوں میں پختوں یا پشتون بلوچ اور سندھی ایک قوم بن چکے ہیں جن میں ذات پات نا ہونے کی وجہ سے کوئی تقسیم نہیں ہے جو فخریہ اپنے آپ کو پٹھان، بلوچ اور سندھی کہلاتے ہیں مگر پنجابیوں میں بے تحاشہ تقسیم کی وجہ سے کوئی ایک رشتہ نہیں ہے جو ایک قوم کہلا پائے۔ وہ وجوہات ہیں کہ پنجاب پر حملہ آوروں کا قبضہ اور غلبہ رہا ہے جن کے سامنے مقامی راجے مہاراجے قومیت کی بجائے ذات پات کے شکار رہے تو ان کی شکست ریخت کا باعث بنتا رہا ہے۔ تاہم متحدہ ہندوستان کے وقت بنگال کے بعد پنجاب دوسرا بڑا صوبہ تھا۔ جس کا رقبہ دھلی سے جلال آباد تک پھیلا ہوا تھا جس میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سلطنت میں بعض ایسے علاقے بھی شامل کیئے گئے تھے جو افغانستان یا دوسری ریاستوں کے حصے تھے۔ جس میں ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، چارسدہ، مردان، ڈیرہ غازی خان اور دوسرے بڑے علاقے تھے۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد پنجاب بنگال کی طرح بٹوارے کا شکار ہوا۔ جو مشرقی اور مغربی پنجاب کہلایا پھر مشرقی پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کردیا گیا جس کے اثرات آج پاکستان کے پنجاب پر بھی پڑ رہے ہیں کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ ہوتا رہتا ہے جو صرف شاید اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے رُکا ہوا ہے جس کا تعلق کلی طور پر نارتھ پنجاب سے ہے اور جزوی طور پر مرکزی پنجاب سے ہے جو پنججاب کی سب سے بڑی دشمن کہلاتی ہے کہ آج اس اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے پنجابی مزدور اور کسان بھی باقی صوبوں کی عوام کی نفرتوں اور حقارتوں کی شکار ہے جو پنجابی زبان کلچر تہذیب وتمدن کی بھی دشمن ہے جن کی وجہ سے پنجابی اپنی ماں بولی زبان سے محروم ہے جن کے بچے پنجابی زبان کی بجائے اردو یا انگلش بوتے نظر آتے ہیں لہذا پنجابی زبان کا دشمن صرف اور صرف نام نہاد پنجابی ہے جن کی وجہ سے صدیوں پرانی زبان جو صوفیوں، اولیوں اور بزرگوں کی زبان تھی وہ آج ناپید ہو رہی ہے جس کے لکھنے اور بولنے والے حضرت بابا فرید، بابا بلھے شاہ، شاہ حسین ، حضرت وارث شاہ، میاں محمد بخش تھے جن کی بدولت پنجابی زبان پورے خطے میں فخریہ بولی اور لکھی اور پڑھی جاتی تھی جو آج ماضی کا حاصہ بن چکا ہے۔ بہرحال پنجاب میں طنزومزاح کا سلسلہ جاری ہے میڈیا پر پنجابی زبان میں مذاق اڑایا جاتا ہے جس سے لگتا ہے کہ پنجابی زبان صرف اور صرف مزاحیہ یا گالی گلوچ کا حصہ ہے جبکہ صوفیائے اکرام کی ملکی ہوئی پنجابی زبان پر پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے جن کا کلام فلسفے، محبت، پیار، امن کا درس دیتا ہے جس کو پنجابی حکمران طبقہ نے نیست ونابود کردیا ہے جس کے لئے لازم ہے کہ پنجاب میں پنجابی زبان کو نصابی بنایا جائے تو یہ زبان بچ پائے گی ورنہ سنکسرت کی بیٹی پنجابی زبان مٹ جائے گی کیونکہ جو زبان تحریر میں نئی وہ تقریر میں نہیں ہوتی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here