دہشتگردی کاخاتمہ …سیاسی اتفاق رائے درکار!!!

0
10

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سیاسی اتفاق رائے وحمایت پر زور دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مچالی کامیابیوں کو باعث فخر قرار دیا ہے۔پشاور میں وفاقی وزیر داخلہ ، وزیر اعلی ، گورنر کے پی اور صوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقات و خیبر پختونخوا میں انسداد دہشت گردی آپریشنز پر بریفنگ کے دوران آرمی چیف نے کہا کہ دشمن خوف اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن پاکستانی قوم پیچھے نہیں ہٹے گی۔ پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے میں دہشت گردی پھر سے سر اٹھانے لگی ہے۔قبائلی ضلع کرم کے واقعات میں اس کی خدشات پر بات ہوتی رہی ہے۔خیبر پختونخوا کے دیگر سرحدی علاقوں وبلوچستان میں دہشت گردی از سر نو انسدادی حکمت عملی کا تقاضا کرتی ہے۔آرمی چیف کی سیاسی رہنماوں سے ملاقات میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں حمایت و اتفاق رائے پر زور دینا ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی سطح پر دہشت گردی کے خطرے کے حوالے سے مربوط مشاورت میں کمی ہے ۔ دہشت گردی کی جدید شکل سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی ہے۔ یہ اکثر فیصلہ سازوں پر اثر انداز ہونے کے لیے ایک سٹریٹجک ٹول کے طور پر خوف کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ نقل و حمل کے مراکز، ہوائی اڈوں، شاپنگ سینٹرز، سیاحتی مقامات اور رات کے وقت پر رونق رہنے والے مقامات کو نشانہ بنا کر، دہشت گردوں کا مقصد وسیع پیمانے پر عدم تحفظ کو ہوا دینا، نفسیاتی دباوکے ذریعے پالیسی میں تبدیلیاں لانا اور حفاظتی اقدامات پر اعتماد کو متزلزل کرنا ہے۔اصطلاح “دہشت گردی” کی ابتدا 18ویں صدی کے اواخر میں فرانسیسی انقلاب کے دوران ہوئی۔ 1970 کی دہائی میں شمالی آئرلینڈ میں مشکلات، باسکی تنازعہ اور اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دوران دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ 1980 کی دہائی کے بعد سے خودکش حملوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کی علامت 2001 میں امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں سے واضح ہوئی۔ جس کے نتیجے میں 2000 اور 2014 کے درمیان کم از کم 140,000 اموات ہوئیں۔ پاکستان میں سوویت یونین کے مفادات نے دہشت گردی کو ابھارا۔افغان جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے کردار نے پاک سرزمین میں بد امنی کو بڑھایا۔پشاور کے آرمی پبلک سکول پر وحشیانہ حملہ پاکستان کے لیے دہشت گردی کے خلاف ایک جامع حکمت عملی اور ایک وسیع فوجی آپریشن کی حمایت میں غیر معمولی سیاسی اتحاد کا باعث بنا۔ مکمل سیاسی حمایت کے بعد پاک فوج کی ان کوششوں نے عسکریت پسندوں کو سرحد پار سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور پاکستان میں نسبتا امن قائم ہوا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی، جس میں 2013 میں 1,717 حملوں میں ہلاکتیں 2,451 سے کم ہو کر 2020 میں 146 حملوں میں 220 رہ گئیںلیکن پاکستان کے انسدادِ شورش سے حاصل ہونے والے فوائد ایک بار پھر اب خطرے میں ہیں۔پچھلے کچھ برسوں میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے کچھ حصوں میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اس اضافے کی وجہ اگست 2021 میں پڑوسی ملک افغانستان میں افغان طالبان کے اقتدار پر قبضے کو قرار دیتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں نسلی علیحدگی پسند گروہوں نے دوبارہ زور پکڑ لیا ہے، یہ گروہ چین کے بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کے پروگرام بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت منصوبوں میں شامل سکیورٹی فورسز اور چینی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ماہرین اور سیکیورٹی حکام نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں میں رکاوٹ بننے والے متعدد چیلنجوں کی نشاندہی کی ہے۔سب سے اہم سیاسی عدم استحکام ہے،پھر کمزور طرز حکمرانی،حکومت کی کم ہوتی عوامی حمایت، اقتصادی رکاوٹیں اور افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی امداد میں کمی جیسی وجوہات ہیں۔سب سے بڑا چیلنج اتنے وسیع خطوں میں آپریشنز کے لیے ضروری مالی وسائل اور افرادی قوت کو متحرک کرنا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے مسئلہ بنیادی طور پر سرحد پار افغانستان ہے۔افغان دارالحکومت کابل میں طالبان انتظامیہ تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے الزامات کی تردید کرتی ہے تاہم ٹی ٹی پی کی کاروائیاں روکنے کے لئے موثر اقدام نہیں کیا جا رہا۔ ایک جمہوری قوم شہری آزادیوں کی حمایت کرنے والی دوسری حکومتوں کے مقابلے میں اعلی اخلاقی برتری کا دعوی کر سکتی ہے، لیکن ایسی ریاست کے اندر دہشت گردی کی کارروائی ایک مخمصے کا باعث بن سکتی ہے۔سوال سر اٹھاتا ہے کہ آیا اپنی شہری آزادیوں کو برقرار رکھنا ہے ؟ تاخیری طرز عمل اس مسئلے سے نمٹنے میں مسائل کا سبب بنتاہے۔ مقامی سطح پردہشت گردی کو ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ریاست کو غیر قانونی قرار دینا اور ریاستی نظام کے متعلق منفی جذبات کو ابھار کے انارکی کی طرف دھکیلنیکا سبب بنتا ہے۔پاکستان کی حکومتون اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تعلقات اس نوع کے نہین رہے کہ وہ قومی امور پر اتفاق رائے پیدا کر سکیں۔معاشی بحران برسوں سے ملک کے لئے آزار بنا ہوا ہے لیکن میثاق معیشت کا نعرہ حقیقت نہیں بن پایا۔اسی طرح دہشت گردی نے معیشت کی ترقی و سرمایہ کاری کا راستہ روک رکھا ہے، اس رکاوٹ سے سبھی سیاسی جماعتیں آگاہ ہیں لیکن اپنے اختلافات اور انا کے مینار سے انہیں ملک دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ایک بار پھر عسکری قیادت نے دہشت گردی کے معاملے پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کا انتظام کیا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اس اتفاق رائے کو ملک میں جاری سیاسی کشمکش کی آگ سے محفوظ رکھا جائے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here