یادش بخیر کیا وہ دن تھے جب صدیق پبلک سکول راولپنڈی میں میرے استاد اور دوست پروفیسر صدیق چیمہ سے میں ملنے جاتا تو وہاں ایک باادب اور ذہین نوجوان نثار برکی سے بھی کبھی کبھار ملاقات ہوجاتی۔ میرے اس خاندان سے نہایت دوستانہ مراسم تھے۔ ان دنوں نثار برکی راولپنڈی میڈیکل کالج کے طالب علم تھے۔ ایک دن مجھے اپنے چند اشعار سنائے جو شاخِ چمن پر تازہ مہکتی کلیوں کی مانند تھے۔ جوانی تو دیوانی ہوتی ہے مگر ان کے شعروں میں دیوانگی کم اور فرزانگی زیادہ تھی۔ میں نے کہا برخور دار ابھی تعلیم کی طرف توجہ دیں۔ شاعری کے لیے ایک عمر پڑی ہے۔ شاعر پیدائشی شاعر ہوتا ہے۔ وہ بارشِ الہام اور سیلِ وجدان کی زد میں رہتا ہے۔ جیسے عاشق پر ناصح کی نصیحت بے اثر اور چارہ گر کی چارہ گری کارِ فضول ہوتی ہے ، ویسے ہی شاعر کو شعر کہنے سے روکنا فطرت سے جنگ کے مترادف ہے۔ میرے والدِ محترم تحسین جعفری مرحوم و مغفور خود نامور شاعر ہو کر مجھے شاعری سے منع کرتے رہے مگر بقولِ مرزا غالب!
ما نہ بودیم بدین مرتبہ راضی غالب
شعر خود خواہشِ آن کرد کہ گردد فن ما
نثار برکی چونکہ پیدائشی شاعر ہے وہ پسِ ابر رہ کر بھی شباب اور انقلاب کی شعاں کا شہکار نکلا۔ کئی سالوں کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ ساتھ افریقہ میں میڈیکل ڈاکٹر ہے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ہے۔ اس سے رابطہ نے ماضی کی یادوں کے کئی دریچے کھول دئیے۔نثار برکی نے اپنی شاعری کی پی ڈی ایف بھیجی اور اس کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی۔ میں نے جب ان کے اشعار کو پڑھا تو دل نے گواہی دی کہ کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست۔ آپ کی غزلوں میں کلاسیکل غزل کی چاشنی اور رومانوی رنگ کے ساتھ ساتھ انقلابی آہنگ نمایاں ہے۔ مسودہ میں زیادہ تر نظمیں ہیں۔ ہر نظم ایک پیغام ہے۔ سنجیدہ ، اصلاحی اور نظریاتی کلام ہے۔ با مقصد شاعری ہے۔ گویا بقولِ علامہ اقبال!
شعر را مقصود اگر آدم گریست
شاعری ہم وارثِ پیغمبریست
بہار آئے گی اور مقدر کا زینہ رجائیت کی آئینہ دار ہیں، اردو شاعری میں ہجر و وصال اور نالہ و فریاد بکثرت ہے۔ قنوطیت کی بھر مار ہے۔ اداسی، دل شکنی اور مایوسی کا اظہار ہے۔ نثار برکی اپنے ذاتی غم کو آفاقی غم کے پیکر میں ڈھال دیتا ہے اور غمِ جاناں کو غمِ دوراں اور غمِ انساں کا روپ دیتا ہے۔ نظم قلم رکھ دو پاکستان کے نظامِ زور و زر کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ بھی وطن چھوڑ کے دیارِ غیر میں بستے جا رہے ہیں۔ ہر شخص ملکی نظامِ جبر سے بیزار ہے اور ویزہ کا طلب گار ہے۔ مجھے تو نثار برکی کی اس نظم میں اپنے ایک شعر کی جھلک نظر آ رہی ہے!
اب جعفری یہاں سے چلو کوچ کر چلیں
یہ ملک اب تو رہنے کے قابل نہیں رہا
ایک نظم چادر و چاردیواری میں آمر وقت جنرل ضیا الحق کے دورِ استبداد و استکبار پر سخت طنز کرتے ہیں۔ مذہب کا سیاست اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کسی لعنت سے کم نہیں۔ ابھی تم کو اجازت نہیں ہے بہت زور دار اور انقلابی نظم ہے۔ اس نظم میں جمہوریت اور انسانی آزادی کا پرچار ہے جبکہ غلامی اور مذہبی فرقہ واریت پر ضربِ کاری لگائی ہے۔ اسی طرح ہم بھول گئے بھی بہت انقلابی نظم ہے۔ وطن کی محبت اور قائدِ اعظم میں پاکستان میں سرمایہ داری، جاگیر داری، ملائیت، افلاس، غلامی اور نوکر شاہی کے خلاف صدائے احتجاج ہیں۔ جو قائدِ اعظم کا پاکستان تھا وہ کبھی کا دفن ہو چکا اور موجودہ پاکستان لٹیروں اور وڈیروں کا پاکستان ہے۔ پاکستان کو قائدِ اعظم کا پاکستان بنانے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے وگرنہ بقول فیض احمد فیض
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
محبت کا جذبہ انسان کا فطری جذبہ ہے۔ وہ شاعر ہی کیا جو شاعرِ محبت نہ ہو۔ واعظوں اور سیاست دانوں نے نفرت کی آگ بھڑکائی جبکہ شاعروں اور فلسفیوں نے محبت اور امن کی شمع جلائی۔ نثار برکی بھی اپنی نظموں سرخ پھول، چنوتی اور تمہیں کیسے بتائوں میں مرقدِ عشق پر سرخ پھولوں کی چادر بجھاتا ہے ۔ ان نظموں میں دردِ ہجراں کی تپش نہایت دلسوز اور جاں گداز ہے۔ یروشلم بھی نہایت دلسوز نظم ہے، فلسطینیوں پر اسرائیل نے جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ انسانیت کے ماتھے پر سیاہ دھبہ ہیں۔ امن و انصاف کے نام نہاد عالمی ٹھیکیداروں کی خاموشی اسلام دشمنی کا واضع ثبوت ہے۔ آج بھی غزہ میں اسرائیل نے وہ قیامت بپا کی ہے جس کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ نظم اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کے خلاف سخت احتجاج ہے۔ہر صاحبِ نظریہ شاعر کوئی نہ کوئی پیغام دیتا ہے۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔ نثار برکی بھی شاعرِ پیغام ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ
نثار برکی کی نظم پیغام اس کتاب کی نمایندہ اور فکر انگیز نظم ہے۔ یہ پیغام عالمِ انسانیت کے لیے انس اور اتحاد کا پیغام ہے۔ آج دنیا مذہبی انتہا پسندی سے بیزار ہے۔ مذہب کی آڑ میں نفرت، دہشت گردی اور فتنہ و فساد کا بازار گرم ہے۔ دنیا امن و امان کی خواستگار اور عدل و انصاف کی طلبگار ہے۔ امیر خسرو نے کہا تھا
کافرِ عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ حاجتِ زنار نیست
انسانیت شرفِ انسان اور اصلِ مذہب ہے۔ افسوس صد افسوص مذہبی جنون اور تنگ نظری نے انسان کو حیوان بنا دیا ہے۔ آج کے دور میں دنیا کو روشن فکر دانشوروں کی ضرورت ہے۔ نثار برکی اس نظم میں کہتے ہیں
اب کلیسا، مسجد و مندر کی یورش کو سمجھ
ہر طرف فتنوں میں پیہم قہر کا پیغام ہے
حافظ شیرازی نے بھی کیا خوب کہا تھا
جنگِ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چون ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زدند
نثار برکی کا پیغام ہر ذی شعور انسان کا پیغام ہے ۔ آج اتحادِ انسان اور درسِ انسانیت کی اشد ضرورت ہے۔
میں نثار برکی کو ایسی مثبت شاعری پر مبارک باد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ این دعا از من و از جملہ جہان آمین باد
٭٭٭