”صحافی ارشد شریف کا افسوسناک قتل؟”

0
206
پیر مکرم الحق

اے آر وائی ٹی وی چینل سے منسلک نوجوان، تعلیم یافتہ صحافی ارشد شریف کا نیروبی کینیا میں پولیس کے ہاتھوں بیہمانہ قتل نہایت افسوسناک ہے۔ ہم تمام جرنلسٹ اس خبر پر نہایت رنجیدہ ہیں اس لئے بھی کہ مرحوم ارشد شریف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات پیدا ہونے کے بعد ہلاک کئے جانے کے خطرات سے دوچار ہونے کے بعد مجبوراً وطن بدر ہوئے۔ ارشد شریف جس ٹی وی چینل کے لئے کام کر رہے تھے اسے بھی خاموش کر دیا گیا تھا۔ ارشد شریف کو بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں تھیں۔ ارشد شریف کی اگست2022ء میں ملک چھوڑنے کے بعد پہلی منزل تو عرب امارات تھی لیکن وہاں بھی ان پر زندگی تنگ کر دی گئی اور مجبوراً انہیں وہاں سے بھی نکلنا پڑا کیونکہ کینیا میں پاکستانیوں کیلئے ویزا کی ضرورت نہیں اس لئے وہ نیروبی میں پچھلے کچھ ہفتوں سے مقیم تھے۔ بروز اتوار23اکتوبر2022ء ارشد شریف اپنے ایک عزیز جرم کے ساتھ نیروبی سے مگاڈی کی طرف روانہ ہوئے۔ نیروبی مگاڈی ہائی وے پر تقریباً دو گھنٹے کے سفر کے بعد کو نیا فارم کے قریب پولیس بیریئر پر ارشد شریف نے گاڑی روکنے کے بجائے گاڑی دوڑا دی اور پولیس نے انکا پیچھا کیا اور کچھ فاصلے پر پہنچ کر گاڑی کے قریب پہنچ کر فائرنگ کی جس سے ارشد شریف کو گولی سر میں لگی اور وہ شہید ہوگئے۔ مرحوم ارشد شریف تحریک انصاف اور عمران خان کے مداح تھے لیکن وہ ہمارے ایک بھائی جرنلسٹ بھی تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنی زندگی بچانے کیلئے اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیر میں آگئے تھے لیکن انہیں کیا پتہ کہ موت نے انکا پیچھا یہاں بھی نہیں چھوڑا اور کینیا کی پولیس انکے لئے موت کا فرشتہ بن گئی۔ ارشد شریف نے اپنے پیچھے بیوہ اور پانچ بچے چھوڑے ہیں جو اب یتیم ہوگئے۔ انااللہ واناالیہ راجعون ہماری دلی ہمدردی اس سوگوار خاندان سے اللہ پاک انکو صبروجمیل عطا کرے۔FPA Africeافریکا کی فارین پریس ایسوسی ایشن نےCNNسے بات کرتے ہوئے ارشد شریف ہولناک موت سے متعلق حالات پر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک قابل اور نڈر صحافی کی موت جن حالات میں ہوئی ہے وہ تمام بیرون ملک کے صحافیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو اس وقت اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے کینیا میں مقیم ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں بھی اس واقعہ سے متعلق متنازعہ خبریں گردش کرتی رہیں ہیں۔ لیکن بہرحال کینیا کے صدر نے وزیراعظم شہبازشریف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ واقعہ کی مفصل تحقیقات کرائی جائیگی اور جلد ہی ارشد شریف کی جسد خاکی کو پاکستان بھیجنے کے انتظامات جلد سے جلد کئے جائیں گے، سوشل میڈیا میں مقتول صحافی ارشد شریف کی تصاویر جو گردش کر رہی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ دو گولیاں پوائنٹ بلینک فاصلے یعنی قریبی فاصلے سے انکے سر پر چلائیں گئیں ہیں۔ جبکہ کینیا پولیس کا بیان ہے کہ پولیس نے پیچھا کرتے ہوئے گولی چلائی ہے۔ دوسری بات جو کینیا کی پولیس نے کہی ہے کہ مرحوم ارشد شریف کے ساتھ اس سفر میں انکے بھائی خرم احمد ہمسفر تھے جبکہ اصل میں ارشد شریف مرحوم کے ایک ہی بھائی تھے جو میڈیکل کور آرمی میں میجر کے عہدے پر فائز تھے جو کچھ برس پہلے طالبان کے ایک آئی ڈی حملے میں اپنے والد کے جنازے میں شرکت کرنے کیلئے اسلام آباد آتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ تو پھر یہ خرم کون ہیں؟ جو انکے ساتھ اس سفر میں تھے اور انہیں کوئی نقصان نہیں ہوا نہ ہی ڈرائیور ہی کو کوئی گولی کا زخم آیا حیرت کی بات ہے کہ ایک گاڑی میں تین مسافر سوار تھے ایک کو تو دو گولیاں سر میں لگیں اور وہ وفات پا گیا۔ دو لوگ جو انکے علاوہ گاڑی میں سوار تھے انہیں خراش تک نہیں آئی یہ وہ چبھتے سوال ہیں جو کینیا پولیس کی کہانی پر سوال اٹھا کر اس مشکوک بنا رہے ہیں۔ ویسے بھی کینیا جعلی پولیس مقابلوں کے معاملے میں پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ حالیہ یہ موت میں حامد میر، ابصار عالم اور اسد طور پر جو حملے ہوئے ہیں انہوں نے پاکستان کو اخبار نویسوں کیلئے پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ملکوں کی قطار میں لاکھڑا کیا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی جمہوری نظام کی خوبصورتی ہے لیکن آج کا پاکستان افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حقیقی جمہوریت سے محروم ہے۔ حالیہ دنوں میں پرانے لاڈلے اور حال کے باغی سیاستدان نے بھی بھانڈہ پھوڑ بیان دیکر رہی سہی غلط فہمی کو بھی افشاں کردیا کہ ”میرے تو کوئی اختیارات ہی نہیں تھے جو بھی اہم فیصلے تھے وہ اسٹیبلشمنٹ کرتی تھی میں تو”مالی” تھا جو حکم دیتے تھے میں کر لیندا ماں!!!!
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here