الگ راستوں کا دُکھ!!!

0
264
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

جب راستے جُدا جُدا ہوں تو منزل یکجا نہیں ہوتی۔ جادہء زندگی یکساں تو منزل مقصود مانند شبستاں۔ ممتاز امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ(Robert Frost) اپنی ایک نظم میں لکھتا ہے کہ میرے سامنے دوران گُلگشت دوراستے آگئے اور مجھے انتخاب ایک راستے کا کرنا تھا جو میں نے کیا اور دوسرے راستے کے سفر سے محروم رہا۔ اسی طرح جو حقیقی ہمسفر ہوتا ہے وہ آپ کا ہمدم و ہمراہ ہوتا ہے۔ ‘الگ راستوں کا دُکھ’ زیست کے سفر میں بڑا کرب ناک اور دل دوز ہوتا ہے۔ یہ محبت کی پگڈنڈیوں کا سفر ہو یا زندگی کے لق ودق صحرا کا سفر ہو، دست دردست، قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ ہم سفر ہو تو زندگی جنت وگرنہ دوز، ٹینیسن(Tennyson) نے کیا خواب کہا تھا کہ وصال دوست جنت اور فراق دوست دوزخ ہے۔
‘الگ راستوں کا دُکھ’ ممتاز شاعر، دانشور اور کالم نگار دوست محترم ڈاکٹر طلعت شبیر کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جو پچاس غزلیات اور سینتیس منظومات پر مشتمل ہے۔ آپ انگریزی اور اُردو کے مایہ ناز ادیب ہیں۔ آپ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور آپ کے کلام کی بنیادی خصوصیت سلاست وبلاغت، غنائیت وموسیقیت ہے۔ آپ کی شاعری سادہ وسلیس ہے، جذبات میں شدت وحدت اور افکار میں جدت ہے۔ عشق میں طہارت، جنون میں نزاکت اور وجدان میں بصیرت ہے۔ رنگ وآہنگ شاعری رُومانیت سے بھرپور، سماجی مسائل پر نگاہ عمیق اور نفسیاتی معاملات پر مکمل دسترس اور غزلیات میں درد ہجراں کی تپش سوزش پروانہ ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا!
اُن کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
لیکن طلعت شبیر کا محبوب تو کار مسیحا کرتا ہے اور مردوں کو زندہ کر دیتا ہے۔ کہتے ہیں!
تیری فُرقت میں مر گیا تھا میں
تیرے آنے سے جی اُٹھاہوں میں
بڑی شاعری میں استعارات وتشبیہات کی معجزنمائی نمایاں ہوتی ہے جبکہ ایمائیت اور جوازیت ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ شعر کے پہلے مصرعے میں ایک دعویٰ کرنا اور دوسرے مصرعے میں دلیل دعویٰ گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ طرز شاعری کم یاب ونایاب ہے۔ غزل کے دو اشعار وجہ تسمیہ اور جواز شعر پر ملاحظہ کیجئے!
ہم جو ڈوبے تو پھر بھی اُبھریں گے
کٹ گرے گا تو سوُکھ جائے گا
یہ شجر بھی شجر تو ہے آخر
چراغ حسن حسرت کی مشہور زمانہ غزل کا ایک شعر ہے!
غیروں سے کہا تم نے غیروں سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سُنا ہوتا
طلعت شبیر کی شاعری میں مقام حیرت اور عالم بے خودی ہے۔ کہتے ہیں! (جاری ہے)
اُس نے بھی کچھ کہا نہیں
میں نے بھی کچھ سُنا نہیں
یہ شعر سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے۔ پیش محبوب شاعر مثل سنگ گنبد ہے۔ زبان بے زبانی سے دونوں طرف سے سکوت گنبد بے در کی صدا ہے۔ دل کی دھڑکنوں کے زیرو بم ہی آواز دل شکستہ ہیں۔ الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔خاموشی ببانگ دُہل حکایت دل بیان کر رہی ہے۔ اشک خونیں شمع شب دیجورداغ دل بقعہ، نور اور چشم گریاں رشک چراغ طور ہے۔ شاعری میں شام کا سماں خلوت جاں ہے۔ جب دن ڈھلتا ہے تو ڈھلتے سایوں کے ساتھ حساس شاعر ڈوبنے لگتا ہے۔ ڈولتا دل سنبھلتا نہیں۔ دل مچلتا ہے۔ جذبات کا لاوہ اُبلتا ہے۔ بقول غالب!
جوئے خُوں آنکھوں سے بہنے دوکہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہوگئیں
ڈاکٹر طلعت شبیر کی دو غزلیات میں ”شام” کا لفظ بطور ردیف استعمال ہوا ہے۔ موسم اور زمان ومکاں کے اثرات انسانی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ درج ذیل اشعار میں شاعر کی آتش دُروں شعلہ بار ہے۔ یہ اشعار دل شکستہ کی شمع فسردہ کے آئینہ دار ہیں۔ کہتے ہیں!
ایک دھڑکا سا لگا تھا شام سے
دل بھی مشکل میں پڑا تھا شام سے
آگیا سورج ہتھیلی پر لیے
اک دیا ہی تو بجھا تھا شام سے
یوں جدا مجھ سے ہوا تھا شام کو
میں بھی کب اُس سے ملا تھا شام سے
‘ایک شخص سارے شہری کو ویران کر گیا’ کے مصداق اس رنج روح فرسا کو ڈاکٹر طلعت شبیر بھی شہر نگاراں کو عزیز جاں اور کوئے یار کو سرمہ چشم دلبراں گردانتے ہوئے پکار اُٹھتے ہیں!
سب سلسلے تھے شہر کے اُس کے وجود سے
وہ کیا گیا کہ شہر کا ہر سلسلہ گیا
جب پیار کے یہ سلسلے ٹوٹتے ہیں تو شمع زیست ٹمٹمانے لگتی ہے اور بقول شاعر
تم جو گُل کر گئے ایک تمنا کا چراغ
محفل زیست کی شب شمعیں بجھا دیں میں نے
مشرقی طرز معاشرت میں اظہار عشق بھی ایک جرُم اور ناپسندیدہ طرز عمل سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ ہماری روایات ورسوم ہیں۔ جب محبت بوالہوسی اور عشق بے وفائی ٹھہرے تو اس سے اجتناب برتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اس نازک اور حساس نکتہ کو ڈاکٹر طلعت شبیر نے معاشرتی رسم کے علاوہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی قرار دیا ہے۔ کہتے ہیں!
ایسے سمہے ہوئے پھرتے ہیں محبت کے امیں
جانے کیوں پیار کی نظروں سے بھی ڈر جاتے ہیں
غم جاناں اور غم دوراں ایک ہی مسئلے کے دوزخ ہیں۔ جب ان کا اتصام ہو تو یہ غم انساں کی صورت میں اُجاگر ہوتے ہیں۔ مرزا غالب پر رُومانویت غالب تھی۔ ان کی شاعری نفسیاتی، سماجی اور انقلابی ہونے کے باوجود رومانویت کے زیراثر ہے۔ کہتے ہیں!
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
رُومانس انسان کا فطری جذبہ ہے۔ شاعر انسان دوست اور آزادی پرست ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طلعت شبیر کی شاعری غم جاناں کی داستاں غم دوراں کابیاں اور غم انسان کی ترجمان ہے۔ یہ ‘تثلیث غم’ حقیقی شاعری کا غم نہاں ہے۔ غزل مسلسل کا نمائندہ اور سراج میر تقی میر ہے۔
ڈاکٹر طلعت شبیر کا رنگ غزل دیکھئے!
پھر ستاروں کا سفر درپیش ہے
اور چراغوں کو سحر درپیش ہے
چاہتوں کے دُکھ مقدر ہوگئے
نفرتوں کی رہگذر درپیش ہے
کیا خزاں نے پیرہن بدلا نہیں
کیا ثمر کو ایک شجر درپیش ہے
ڈاکٹر طلعت شبیر کی شاعری میں ارض وطن سے محبت اور اپنے آبائی گائوں سے دیونہ وار وار فتگی ودل بستگی کا اظہار ان کے کئی اشعار میں ملتا ہے۔ کہتے ہیں!
پھر نہ بیری ہوگی نہ ہی شیشم کا درخت
گائوں کا گھر نہیں ہوگا تو کہاں جائیں گے
اپنے بچپن کے مسکن اور خوابوں کی جنت اپنے گائوں کا ذکر ان دل دوز اشعار میں کرتے ہیں!
میں اپنے گائوں کو پھر لوٹ جائوں
یہی اب دل میں حسرت رہ گئی ہے
گائوں میں کٹ گرا ہے مرا شجر سایہ دار
بستی میں اپنے دردکا درماں نہیں رہا
آپ کے اشعار میں’گرد’ لفظ جبرواستحصال، بربادی اور بدحالی کا استعارہ ہے۔ گرد سفر کا استعارہ اکثر شاعروں کے کلام میں غبار زندگی کی علامت ہے۔ ڈاکٹر طلعت شبیر نے زندگی کی تلخیوں اور تلخ حقیقتوں کو ایک شعر میں ایسے بند کردیا ہے جس کیلئے ساحر لدھیانوی کو پوری کتاب’تلخیاں’ لکھنا پڑی۔ کہتے ہیں!
یوں زندگی کی گرد میں سب ہی اُٹے رہے
جس نے رُخ حیات سنوارا، نہیں رہا
‘الگ راستوں کا دُکھ’ آپ کی ایک نظم ہے جو کتاب کا سرنامہ بھی ہے۔ آپ کے اشعار میں جابجا ‘دُکھ’ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کہتے ہیں!
چرچے بھی میرے دُکھ کے یہاں پر تھے جابجا
دُنیا سے اپنا غم بھی چھپانا پڑا مجھے
اس تمام دُکھ درج جو واردات عشق مجازی ہے کے ساتھ ساتھ آپ کے کلام میں سماجی تلخیوں، معاشرتی ناہمواریوں اور سیاسی بداعتدالیوں کی جھلک بھی موجود ہے۔!
مجھ کو معلوم سر دار ہوا
کیسے جی سکتا ہے مرتا ہوا شخص
پھر راستوں کی گرد میں اٹ کے وہ رہ گئے
پھر رہ نمائے قافلہ سر پر نہیں رہا
شہر بیدار ہوا چاہتا ہے
کچھ تو اس بار ہوا چاہتا ہے
ایک مدت سے تیرے تابع تھے
اب کے انکار ہوا چاہتا ہے
کتاب کے آخر میں منظومات مختلف موضوعات پر ہیں جو بہت دل نواز بھی ہیں اور دل گداز بھی ہیں۔ ‘انجانا خوف’ میں نفسیاتی اُلجھن کا ذکر ہے۔ ‘بے نام رشتہ’ میں بھی نفسیای اور سماجی معاملات اظہر من الشمس ہیں۔ ‘الگ راستوں کا دُکھ’، ‘مسافت، ‘بھرم’، ‘تکریم’ رومانوی نظمیں ہیں۔ نظم ‘وقت’ میں گائوں کی یاد اور ‘میں کہاں روتی ہوں بابا’ ایک دو سالہ بیٹی کی ماں باپ سے فطری پر خلوص محبت کا ذکر ہے۔ ان نظموں میں رُمانوی، انقلابی، سماجی اور نفسیاتی رنگ وآہنگ ہے۔ علامہ اقبال نے شاعر کو ‘دیدہ بینائے قوم’ کہا ہے۔ شاعر صاحب شعور کو کہتے ہیں۔ شاعر کی نگاہ تیزبین شاہین کی نگاہ ہوتی ہے۔ شاعر صاحب بصیرت ہوتا ہے۔ شاعر فطرت ولیم ورڈز ورتھ نے شاعر کو بیرومیٹر(Barometer) کہا ہے۔ ڈاکٹر طلعت شبیر چشم بصیرت، دل حساس، ضمیر زندہ اور شعور زندگی کے حامل ہیں اور ان کا یہ دُکھ ہر انسان کا دُکھ ہے۔ یہ شاعری وساحری نہیں بلکہ وہ نوائے پریشاں ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا!
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز دُرون میخانہ
٭٭٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here