رمضان المبارک کی باسعادت سعاعتوں کی آمد ہے۔ مملکت خدادا بھی رمضان المبارک میں لاکھوں قربانیوں کے بعدقائم ھوئی۔ آج ملک پر مشکل وقت ہے۔ حالات کشیدہ اور مسائل گھمنیر ھیں۔ مایوسی اور پریشانی جے۔ ہر طاقتور اقتدار کے نشہ می بدمست جو جاتا ہے۔ اصل مسائل کو پس پشت ڈال کر مملکت کو ذاتی نفرتوں کی بھنٹ چڑھایا جارہا ہے۔رمضان المبارک میں سبھی اللہ سے گڑگڑائیں کہ وہ ھماری کوتاہیوں کو معاف فرما کی ھماری اصلاح فرمائے آمین۔
ریاست پاکستان میں ایک نئی روایت نے جنم لیا ہے۔عدلیہ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو سٹریٹ پاور سے چیلنج کیا جارہا ہے۔جس سے آئین پاکستان، عدلیہ اور پارلیمنٹ کی سپرمیسی پر سوالیہ نشان کھڑے ھو چکے بیں۔ہر طاقتور آئین کی تشریح اپنی مرضی سے کر رہا ہے۔سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ججز کا مختلف اور عام عوام کے ساتھ دوہرے معیار نے پورے سسٹم کو ملیا نیٹ کردیا ہے۔ جنرل اسلم بیگ نے سپریم کورٹ میں کھڑے ھو کر سپریم کورٹ کے ججز کے ساتھ توہین آمیز ریمارکس دئئیے تھے۔شریف فیملی نے اپنے کیس معاف کروا کے عدلیہ کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا۔ نواز شریف ملک اے بھاگ کر لنڈن جا بیٹھے۔ سزا یافتہ convicted مجرم کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ عمران خان کورٹ میں پیش نہیں ھو رہا۔ عدلیہ کے فیصلوں کو کوڑی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ کارکنان کو طاقت کے گھنڈ میں سیکورٹی اداروں کے مقابل کھڑا کردیا۔ماضی کے طاقتور ترین سیاسی رہنما اور بنگلہ دیش تحریک کی بانی شیخ مجیب الرحمن نے بھی عدلیہ کا احترام کیا تھا۔ جب بنگلہ دیش بن گیا۔ شیخ مجیب اس وقت بھی جیل میں تھا۔ اسے رہائی کے بعد اسکی خبر دی گئی۔ماضی میں تمام بڑے سیاسی لیڈر کورٹ میں پیش ھوتے رہے۔ جن میں آغا شورش کشمیری۔ سید ابوالاعلی مودودی۔ذوالفقار علی بھٹو۔بینظر بھٹو۔ولی خان ۔وغیرہ۔ان میں سے کسی رہنما نے پیش ھونے سے انکار نہیں کیا۔ ان سے عدالتوں کے فیصلوں کو منوایا گی۔ پھو ایک نئی روایت نے جنم لیا، میاں نواز شریف نے کورٹ پر حملہ کروایا، جسٹس نسیم حسن شاہ اور سینئر ججز کو بھاگ کر اپنی جان بچانا پڑی۔ آج ماضی کی اسی تاریخ کو بار بار دہرایا جارہا ہے۔جتھوں کی صورت میں کورٹ میں پیش ھونا۔ پتھر۔ ڈنڈے اور ہزاروں کارکنان کے ساتھ پیش ھونا۔ ریاستی اداروں اور سیکورٹی کو مفلوج کر دینا ، انتہائی افسوسناک اور مضہکہ خیز ہے۔ کہ جو لوگ اقتدار میں آتے بیں ۔ قانون سازی کرتے بیں۔ نظام حکومت چلاتے ھیں۔ کورٹ عدلیہ اور سسٹم کو چیلنج کرتے ھیں۔ جو قابل مذمت اور قبیع my جرم ہے۔خمزہ کے کئے اتوار کو کورٹ کھلی اور اسکی ضمانت کے بعد وزیراعلی کا منصب عطا کیا گیا۔آدھا ملک گنوا دیا آدھا ملک ھم سے سنھبالا نہئں جارہا۔پولیٹکل اسٹبلشمنٹاورپارلیمنٹ بے توقیر ھو چکی ہے۔لاجک،منطق ایتھیکس،موریلئٹی نام کا ھماری سیاست سے کوئء تعلق نہئں۔بے شرم اور بے حیا اشرافیہ ملک میں انار کی ،دھینگا مشتی کی زریعے الیکشن کا انعقاد روکنا چاہتے ھیں۔ لنڈن پلان ھو یا اسٹبلشمنٹ یا پی ٹی آئی موجودہ حالات میں عدلیہ کا امتحان ہے۔ن لیگ انصاف کے دہرے معیار کی بات کررہی ہے۔موجودہ پولورائزیشن کی وجہ سے عسکری اداروں ،عدلیہ میں کے خلاف پارلیمنٹ کے پلے کچھ نہئں ۔اپنی اخلاقی حیثیت کھو چکی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کو کالعدم کرنا کا ریزولوشن لائینگے اسکء کوئء عملی حیثیت نہیں ھوگی۔پارلیمنٹ اپنی ساکھ اور اہمیت کھو چکی ہے۔ایم کیو ایم، پی ٹی آئی ،ن لیگ نے جس کلچر کو ڈویلپ کیا ہے اس نے پاکستانی سیاست کو داغدار کا گالی بنا دیا ہے۔ آئی ایس آئی نے ایکدوسرے کی سپورٹ کرکے لوگوںکی شلواریں اتاریں۔ عزتیں اچھالئں۔ آج مقافات عمل کا شکار ھیں۔ کبھی ن لیگ۔ اور کبھی پی ٹی آئی کیطرف سے عسکری اداروں اور عدلیہ کو گالیوں اور غلاظت سے نوازا جا رہا ہے۔یہء کام الطاف حسین کرتا تھا۔ جو بلے عسکری اداروں نے پالے۔ ان سب نے اسٹبلشمنٹ اور عسکری اداروں کو بے توقیر کیا ۔ گالیاں دیں ۔ چونکہ آئی ایس آئی ان سے یہ کام لے چکی تھی۔
اب کیا پچھتائے ھوت جب چڑیاں چگ گیں کھیت۔
ان سیاسی مہروں کو پالنے والے ، ملک میں افراتفری، گند اور نفرت پیدا کرکے۔ آسٹریلیا، امریکہ ،یورپ میں مزے کررہے ھیں۔ ملک کو جانوروں کے سپرد کردیا گیا ہے۔ عوام پریشان اور اسٹبلشمنٹ کے پالتو ہاتھ مل رہے ھیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے۔ فاشزم کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔پی ڈی ایم اپنے لئے ایسا گھڑا کھود رہی ہے جس میں آئیندہ خود دفن ھونگے۔ خوف اور جبر کی سیاست ھمیشہ نقصان کا باعث ھوا کرتی ہے۔ فسطائیت حربے ملک کو کمزور کرتے ھیں۔ صحافیوں تشدد نامناسب ہے۔ بغاوت اور غداری کے مقدمات قابل مذمت ہے۔جب یہ لوگ اپوزیشن میں ھوتے ھیں انہیں جمہوریت یاد آجاتی ہے۔ حقوق یاد آجاتے ھیں۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ اخلاقی قدریں اور روئیے پارٹیوں کے manifesto کی نشاندہی کرتے ھیں۔ سفاکی اور مخالفین کو ختم کرنے کی سوچ پارٹیوں کا سٹریکچر تباہ کرتی ہے۔
ان پارٹیوں میں جمہوریت اور الیکشن نہ ھونے کی وجہ سے فاشزم پروان چڑھا ہے۔ جو سیاسی موت کا شاخسانہ ھوگا۔قوم کو عمران کے خلاف عدالتوں اور ایف آئی آر پکڑ دھکڑ کیطرف لگا کر ایٹمی اٹاثوں کاور لانگ رینج مزائیلوں پر سودے بازی کی جارہی ہے۔امریکی جنرل کا بیان کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے مخفوظ ھیں ۔دال میں کچھ کالا ہے۔ملک میں آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو سچ سننے کا حوصلہ نہئں ہے۔ بول نیوز کے شعیب شیخ کو پابند سلاسل کیا گیا اور اب اسلام آباد کے بیورو چیف صدیق جان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس انداز مئں اٹھایا جاتا ہے وہ اغوا کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔
آئین کو پامال کیا جارہا ہے۔ نہ جرم بتایا جاتا ہے۔ نہ کوئی پرچہ درج ھوتا ہے۔ لوگوں کو ایسے اٹھایا جاتا ہے جیسے دہشت گردوں کو اٹھایا جاتا ہے۔ خفیہ ہاتھ ھوں یا ایف آئی اے ۔ ان کے انداز انتہائی مجرمانہ اور سفاکانہ ھیں۔حکومت بوکھلاہٹ میں ایسے اقدامات کررہی جن سے انہیں آئندہ پالا پڑ سکتا ہے۔ ھم آگے جانے کی بجائے پتھر کے دور میں ملک کو لیجارہے ھیں۔ جو غلطیاں ان حکمرانوں نے ماضی میں کیں تھیں آج پھر اس عمل کو دھرا رھے ھئں۔ یہی کام ماضی میں ان کا اقتدار ڈبو چکا ہے۔ خوف و ہراس پھیلا کر اپنے لئے گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ عمران ریاض ، جمیل فاروقی، سمیع ابراہیم، چوہدری غلام حسین، اور ایاز میر کو بھونڈے انداز میں اٹھایا گیا۔ تشدد کیا گیا۔ لیکن یہ صحافی اب انکے خلاف مزید کھل کر بھول رہے ھیں۔ ھم بیرونی دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ہر پارٹی اپنے دور میں صحافیوں پر قدغن لگاتی ہے۔
اس مطلب یہ ھوا کہ پی ٹی آئی اپنے دور حکومت میں اپنے مخالف صحافیوں کو ایسے ہی ہراساں کرے گی۔پابند سلاسل کرے گی۔ انتظامیہ ،عدالتیں اور جج کبھی فضل الرحمن کے لٹھ بردار ،تحریک لبیک کے ڈنڈہ بردار،ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کے ہاتھوں بلیک میل اور حراساں ھوتے ھیں۔ اور کبھی مریم
نواز کے قافلے اور کبھی پی ٹی آئی کے کارکن ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ھیں۔ ججز ،بیوروکریسی، پولیس اور انتظامیہ کو مفلوج کردیتے ھیں۔ پتھرا اور توڑ پھوڑ کرتے ھیں۔ پولیس کی گاڑیاں جلاتے ھیں۔ نجی املاک کو نقصان پہنچاتے ھیں۔ بھگوڑا نواز شریف لنڈن میں باہر بیٹھ کر ملکی قسمت کے فیصلے کرتیھیں۔
پی ٹی آئی کی نوجوانوں کی جتھہ بندیاں ھئں کرپٹ عناصر عوام پر مسلط ھیں۔
جن کے پروٹوکول اور اللوں تللوں نے ملک میں معاشی بدحالی پیدا کر دی ہے۔لوگ پریشان ھیں۔رمضان المبارک
کی آمد ہے مہنگائی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ بلوں کی قیمتیں انتہا تک پہنچ گئی ھیں۔
حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور عیاشیاں عروج پر ھیں۔ نگران حکومت ، بیوروکریسی اور پی ٹی آئی کیطرف سے فاشزم کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔پولیس کیطرف سے بچوں کو اٹھایا جارہا ہے۔ عورتوں کو دھمکایا جارہا ہے۔ گاڑیوں اور املاک کو پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کیطرف سے نقصان پہنچایا جارہا ہے۔پولیس نے اپنے طرز عمل کیوجہ سے اپنا رعب اور دبدبہ ختم کردیا ہے۔ ریاست مفلوج نظر آتی ہے۔حکومتی رٹ ختم ھو کئی ہے۔ قوم کو عمران کے خلاف عدالتوں اور ایف آئی آر پکڑ دھکڑ کیطرف کراکے۔
ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے ۔پاکستان کے ایٹمی آٹا ثے مخفوظ ھیں امریکی جنرل کا کہنا ہے۔ عسکری اداروں نے اپنے پالتو واں کے ذریعے جس گالی گلوچ کلچر کی بنیاد رکھی آج اس کلچر کا سامنا کر رہی ھے۔ کبھی الطاف، کبھی نواز اور کبھی عمران کے ذیعے طوفان بدتمیزی کا آغاز ھوا۔ کبھی ایم کیو ایم کو لاشیں گرانے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ کبھی عدالتوں پر حملوں کی چھوٹ دی گئی۔ آج ھم سیاسی محاذ پر اس گند میں دھنس چکے ھیں۔قوم یاد رکھے ان آزمائے ھوئے مسخروں کے پاس آپکے دکھ درد کی نہ دوا ھیاور نہ مسائل کا حل۔ اس ملک کو دیانتدار۔ اور صالح قیادت کی ضرورت ھے جو صرف جمات اسلامی کے پاس ھے۔
ملک کو بچانے کے لئے سبھی اپنا کردار ادا کریں ان سفاک فاشسٹوں سے جان چھڑائیں -آئیندہ الیکشن میں اپنی امت جماعت اسلامی کے سپرد کریں تاکہ فتنہ و فساد ، مایوسی،بے یقینی سے قوم آزاد ھو۔
٭٭٭