سسِلی یا پاکستان، کون آگے؟

0
54
کامل احمر

بچپن میں فلم آئی جس میں نتوش کمار پر ایک ملی نغمہ فلمایا گیا تھا سلیم رضا کی آواز تھی ”آئو بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی ،جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی اور اس میں کسی شبہ کی بات نہیں۔ جب تک ہر کوئی پاکستانی ملی جذبہ، ایمانداری اور رسول کی محبت خدا کا خوف لئے ہوئے تھا۔ کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم اُسے مثالی بنائینگے۔ لیکن یہ خواب تھا ،اقبال کے اس خواب سے مختلف اور آج جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ ایک ڈرائونی بھیانک خوفزدہ کرنے والی تعبیر ہے اپنی عمر کے اکیاسی ویں سال میں بیٹھے جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں وہ ڈیپریشن کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہم نے ایک اطالوی”ITALIAN” فلم دیکھی جو حقیقت پر مبنی ہے اور اس کے ہدایت کارمار کوایمنٹا کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ اس نےTHE Sicilian girl بنا کر اطالوی عوام اور دنیا بھر میں رہنے والے فلم بینوں کو بنیادی طور پر سیلن مافیا کا ڈھانچہ پیش کیا جو95فیصد حقیقت کے قریب ہے اور جو اس فلم کی اصل ہیروئن دیتا کی ڈائری کی مدد سے مافیا کے بخیئے ادھیڑنے کا سبب بنی تھی۔
فلم میں دیتا جس کی عمر17سال بتائی گئی ہے اور جس کا تعلق بھی سلیِ کے مافیا خاندان سے تھا جو اپنے علاقے میں غریب لوگوں کی مدد بھی کرتا تھا دیتا کم عمری سے ہی ڈائری لکھتی ہے جو وہ اپنے اطراف میں دیکھتی ہے جس میں اسکا باپ شامل ہے اور دس سال کی عمر میں وہ دیکھتی ہے کس طرح اس کے چچا نے جو دوسری مافیا کا ہیڈ تھا اسکے باپ کو بیچ چوراہے پر مروا دیتا ہے۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ مل کر بدلہ لینا چاہتی ہے اور پھر جب سات سال بعد اسکے بھائی کو بھی مار دیا جاتا ہے تو وہ پراسکیوٹر سے مدد چاہتی ہے اور بدلہ لینے کا ٹھان لیتی ہے۔ بڑے پیمانے پر مافیا کے افراد کو روم کے کورٹ میں سلاخوں کے پیچھے بٹھا کر سزا دی جاتی ہے لیکن اسکے فوراً بعد جج کو بھی کار بم میں مار دیا جاتا ہے اور جب پراسکیوٹر بھی مافیا کا نشانہ بن جاتا ہے توہ بے آسرا غیر محفوظ ہوجاتی ہے اور اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے بلڈنگ سے کود کر خودکشی کر لیتی ہے یہ بات اٹلی کے اخبارات کی سرخی بنتی ہے اور حکومت ملٹری کی مدد سے پورے سسِلی میں لاتعداد جگہوں پر مخبروں کی مدد سے چھاپے مار کر سینکڑوں بااثر مافیا کے کرتا دھرتا گاڈ فادرز کو گرفتار کرکے عمر قید دیتی ہے حکومت مافیا کے ہی لوگوں سے مدد لیتی ہے وعدہ معاف گواہ بنا کر اور یوں2007میں سسِلی کی مافیا دم توڑ دیتی ہے۔ خیال رہے سسِلی کی مافیا کی جڑیں20ویں صدی کے شروع سے ہی تناور تھیں اتنی کہ اٹلی کے آمر۔ مسولینی نے1924میں مافیا کے خلاف ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا جو فاشتFASCISTگروہ تھا اور پورے اٹلی میں ہر کاروبار اور ادارے میں انکا عمل دخل تھا اس کارروائی کے تحت بہت سے لوگ بھاگ کر امریکہ آبسے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور دنیا بھر سے اپنے ملکوں میں لوٹ مار کرنے والی یہ اشرفیہ امریکہ کے بڑے شہروں میں آباد ہے۔ یہاں بات سسِلی کی ہو رہی ہے ایک زمانہ تھا کہ مافیا کا کنٹرول تھا۔ وہ عام لوگوں کی زندگی کے ہر شعبہ حکومت کے ادارے، بندرگاہوں، اسمگلنگ تعلیم، عدلیہ، تعمیر منظم استحصال، بھتہ خوری، سود کا غیر قانونی کاروبار، عوام میں دہشت گردی پھیلانا۔ قانون کے راستے میں باڑ گانا جیسےFENCINGکہتے ہیں۔ ڈاکے منی لانڈرنگ ہتھیاروں کا لین دین، اغوائ، فراڈ، پولیس منی لانڈرنگ عدلیہ، غیر قانونی جوائ، قتل وغارت گری، ڈرگ ٹریفکنگ اوپر دیئے گئے کاموں میں سسِلی کی مافیا کے5500ممبر شامل تھے۔ اب آج کے سسِلی کو دیکھیں تو مافیا آٹے میں نمک کے برابر ہے اس بات کو ہمارے ایک اطالوی دوست نے بتایا۔ کہ آپ بلاخوف وخطر سسِلی جاسکتے ہیں۔
اب آپ غور کریں کہ کیا آج کا پاکستان سسِلی کا نقشہ پیش نہیں کرتا؟ بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک جس کے ختم ہونے کے آثار فی الحال نظر نہیں آتے جہاں آج یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے جو ہم نے سسِلی کے تعلق سے لکھا ہے اور جب تک ہوتا رہے گا جب تک پولیس، عدلیہ، عوام، پولیس آرمی اور اشرفیہ میں سے نہیں اٹھے گا۔ مافیا گرل دیتا کی طرح اس کا ضمیر نہیں جاگے گا اور جب تک دیتا کی طرح کوئی راہ فرار نہیں ہوگی اور آج یہ ہی دیکھ رہے ہیں کئی عرصہ سے کہ کس طرح ججوں پر مافیا قبضہ کر رہی ہے بلکہ کرچکی ہے بہت سے لکھاری نقشہ کھینچ چکے ہیں، سیلین مافیا نے اٹلی کی صحافی برادری کو کبھی یرغمال نہیں بنایا تھا کہہ سکتے ہیں پاکستانی مافیا اس ضمن میں سسِلی سے دو ہاتھ آگے ہے کوئی ادارہ، کوئی شعبہ اور اشرفیہ میں کوئی نہیں بچا جو اس لعنت سے پاک ہو۔ سندھ کے شرجیل میمن رائو انوار اور زرداری کی مسٹرلیس ماڈل آیان علی جسے کسٹم آفیسر نے منی لانڈرنگ میں پکڑا تھا بعد میں تیسرے دن اس کا قتل ہوگیا۔ صحافی برادری کو خوفزدہ کرنے کے لئے ایک باضمیر دلیر صحافی ارشد شریف کے قتل کی مثال تازہ ہے اور اسکی ماں کو وکیل نہیں مل رہا مطلب یہ کہ وکیل بھی ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے کہ جو لوگ اس قتل میں شامل ہیں وہ بار سرخ ہیں جو عرصہ سے عوام کا استحصال کر رہے ہیں اور کرتے رہینگے اور ایک عمران خان کھڑا ہوگا مقابلے کے لئے تو اس کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر ہر طرح کا حملہ کیا جائے گا۔ ہم یہ ن ہیں کہتے کہ عمران خان کی بیان بازی ہر چند درست نہیں لیکن پانی سر سے گزر گیا چڑیاں چگ گئیں کھیت اس میں کوئی دو رائے ن ہیں کہ ہر جگہ باجوہ کی چھاپ نظر آئے گی۔ اور ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا کہ محافظ ہی ملک کی ترقی میں آڑے آجائے۔ ججوں پر کنٹرول کرے۔ پولیس کو حکم دے اور خود ادارے کے دوسرے افراد کے لئے باعث توہین بنے۔ ہر معاملے اور ہر کام میں شریک ہو بیان دے جو کبھی ہاں اور کبھی ناں میں ہو۔ اور جس کا ضمیر مر چکا ہو۔ کاش مافیا کا اثر اور انکا ٹھکانہ اشرفیہ پر ہونا اور اسٹیبلشمنٹ صاف ستھری ہوتی کاش سب کچھ کرنے کے بعد وہ یہ کہتے ہمارا ہاتھ نہیں ہر واردات میں شامل اور ہر چیز کا علم۔ اور انہیں اس بات پر بھی یقین نہیں کہ مرنا ہے اور یہ سب لے کر نہیں جانا جو ناجائز بنایا ہے ایک انسان کو مرنے کے بعد کتنی زمین کی ضرورت ہے۔ اٹلی5کروڑ افراد کا ملک ہے لیکن ترقی کی رفتار دیکھ لیں کہ روم سے ہائی اسپیڈ ٹرین اور پوری کی پوری ٹرین فیری کے ذریعہ دو میل دور سسِلی کے جزیرے میں پٹری پر پہنچائی جاتی ہے سفر جاری رہتا ہے عوام کو وہ سہولتیں کیا ہماری حکومت نے دیں اگر نہیں تو انہیں ملک ہر حکومت کرنے کا جنون کیوں دیکھیں کب اس مافیا کا خاتمہ ہوگا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here