کالم کا آغاز اس لرزیدہ حادثے سے کرنا پڑا ہے جو گزشتہ جمعہ کو پشاور کے قصۂ خوانی بازار کی فقہ جعفریہ کی مسجد میں پیش آیا جس میں ہماری اطلاعات کے مطابق 62 افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے، ان زخمیوں میں بھی متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔ ذرائع کے مطابق حملہ آور خود کش نے انتہائی دیدہ دلیری سے پہلے پولیس اہلکاروں کو براہ راست نشانہ بنایا، پھر مسجد کے اندر فائرنگ کر کے دھماکہ کیا۔ اس لرزہ خیز واردات پر جہاں دہشتگردی میں خطرناک حد تک تیزی کی صورتحال پر تشویش و خطرات سامنے آئے ہیں وہیں سیکیورٹی کے معاملات پر بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ جدوجہد کے بعد وطن عزیز میں دہشتگردوں اور دہشتگردی پر قابو پانے کے بعد امن و امان کے قیام کو پھر سے تباہ کرنے کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے زور پکڑ گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق دہشتگردی کا نیا سلسلہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات، بعد ازاں تنسیخ نیز افغان طالبان کی جانب سے عدم تعاون کے روئیے کی وجہ بنا ہے اور پاکستان دشمن قوتیں اس کے پس پُشت متحرک ہیں۔ اس دلخراش واقعہ کی ٹائم لائن پر غور کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ واقعہ بھارت اور دیگر پاکستان دشمن ایجنسیز اور ٹی ٹی پی، بلوچ نیشنل آرمی و داعش جیسی تنظیموں کی سازش ہے۔ جمعہ 4 مارچ کو آسٹریلوی کرکٹ ٹیم 24 برس بعد اسلام آباد میں پہلا ٹیسٹ کھیل رہی تھی، اس موقع پر متذکرہ خود کش حملہ نہ صرف داخلی طور پر باعث تشویش ہوا بلکہ دنیا کو بھی پاکستان کے امن و امان کے حوالے سے منفی پیغام کا باعث ہوا جو یقیناً اس حقیقت کو افشاء کرتا ہے کہ اس سازش میں موجودہ عالمی منظر نامے میں کون سی قوتیں اپنا مفاد دیکھ رہی ہیں۔
بھارت کو تو پاکستان میں بہتر امن و امان ایک آنکھ نہیں بھاتا اور مودی حکومت وایجنسیز ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ روس اور امریکہ و یورپ کے حالیہ جھگڑے میں وزیراعظم کا دورۂ روس آنکھ کا شہتیر بن گیا ہے۔ ادھر پاکستان میں جاری سیاسی محاذ آرائی، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو تم پیزار، حکومت گئی نہیں گئی کی بدتر صورتحال مزید غیر یقینی کی فضاء قائم کر رہی ہے اور داخلی و خارجی طور پر خوش کُن نہیں ہے۔ بعض حلقے تو اس شبے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اس سیاسی صورتحال کے پس پردہ بعض عالمی قوتیں بھی کار فرما ہیں۔ ہم اپنے گزشتہ کالم میں اس حوالے سے نشاندہی بھی کر چکے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ اس سیاسی تماشہ بازی میں اپوزیشن واقع بعض قوتوں کے ہاتھوں کھیل رہی ہے یا تبدیلی حکومت و عمران خان سے سیاسی رقابت اور جان چھڑانے کیلئے برسرپیکار ہے، مزید یہ کہ وزیراعظم اور ان کے وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کے روئیے، عمل اور محرکات کیا ہیں اور سیاسی منظر نامے پر اس کے کیا اثرات ہو رہے ہیں۔
جس وقت ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں وطن عزیز میں سیاسی تماشہ اُس نکتہ پر آچکا ہے جہاں حکومت کے جانے پر سارا زور اپوزیشن لگا رہی ہے اور حکومت اس عزم پر ڈٹی ہوئی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے عدم اعتماد کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ اس ساری تگ و دو میں نہ صرف یہ کہ حکومتی اتحادی بلکہ ترین گروپ و بعض ناراض ارکان کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے۔ ایک جانب روٹھوں کو منانے اور عوام کا منفی تاثر زائل کرنے کیلئے حکومت کی ملاقاتوں اور وزیراعظم کے خطاب پر زور ہے تو دوسری طرف اپوزیشن دعوتوں، ملاقاتوں، لانگ مارچ نمبر گیم پورے کرنے کیلئے سارے حربے آزما رہی ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی کروڑوں کی بولیاں لگ رہی ہیں، آئندہ انتخابات کیلئے ٹکٹ دینے کی یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں۔ حکومتی ناراض اراکین علیحدگی اور عدم تعاون کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو انہیں رام کرنے کیلئے وعدے و وعید کئے جا رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہوئی کہ پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ندیم افضل چن واپس بلاول کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔ سابق وزیر پنجاب علیم خان نے اپنے تحفظات پر اظہار کرتے ہوئے ترین گروپ میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کیا تو وزیراعظم نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کو علیم خان کے منانے کاکام سونپا، خبر یہ ہے کہ انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ کر لیا گیا ہے۔ ہمیں ان دونوں واقعات پر پروین شاکر کا یہ شعر یاد آرہا ہے؛
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
آپ اس بات کو سوچیں کہ انتہائی مقبولیت، امید کی حامل اور نوجوان نسل کی محبوب ترین جماعت تحریک انصاف کو ان حالات کا سامنا کیوں درپیش آیا ہے کہ غیر تو غیر اپنوں کو بھی شکوے ہیں۔
سیاسی کارکن ہونے اور صحافت میں تقریباً تین عشروں کی وابستگی کے حوالے سے ہمارا مؤقف ہے کہ سیاسی قائدین و رہنمائوں میں عوام اور اپنے ساتھیوں (خصوصاً ابتدائی، مخلص و نظریاتی) سے جُڑے رہنا ،ملنساری و خوش خلقی، رویوں میں تیقن لیکن حالات کے مطابق لچک اور بہترین ٹیم کا انتخاب بنیادی اہمیت کی خوبیاں ہوتی ہیں۔ تبدیلی حکومت کو موجودہ حالات کا سامنا کرنے میں بلا شبہ کووڈ، مشکل معاشی حالات، مہنگائی کے طوفان انتظامی و گورننس کے معاملات درپیش رہے لیکن ان مشکلات سے بڑھ کر قیادت کے رویوں، پرانے اور نظریاتی ساتھیوں سے اغماز ،اٹل بے لچک انداز و عمل بنیادی وجوہات ہیں جو تبدیلی حکومت کو موجودہ حالات کا سبب بنی ہیں۔ وقت کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور لمحوں میں حالات پلٹ جاتے ہیں نتیجتاً بعد میں صرف لکیر ہی پیٹنی پڑتی ہے ہم ہی نہیں قوم بھی بخوبی جانتی ہے کہ ماضی کے کرپٹ حکمرانوں اور ان کی نسلوں کے مقابلے میں موجودہ قیادت بہت بہتر ہے لیکن اس حقیقت کو مثبت عمل اور رویوں سے ہی اپنے حق میں لایا جا سکتا ہے کہ یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے اور مستقبل میں کامیابی کی کلید بھی، سیاست میں بالخصوص پاکستان میں ہوا کا رخ بدلنے میں دیر نہیں لگتی اور سیاست میں ہوا کا رخ بدلنے میں دیر نہیں لگتی، اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دی ہے۔ سیاست میں ہوا کی تبدیلی نہ ملک و عوام کے حق میں نظر آرہی ہے نہ ہی حکومتی اشرافیہ کیلئے بہتر لگتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ رب کریم پاکستان کے حق میں بہتری فرمائے۔
٭٭٭