محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج ایک اچھی تحریر نظر سے گزری سوچا کہ اس کا بنیادی خیال آپ سے بھی شیئر کیا جائے کیونکہ ہمارے یہاں ایک مخصوص طبقہ انتہائی تنگ نظر ہے اور اعمال و دعا کو بھی اس کے کرنے والوں کو ڈھکوسلہ قرار دیتا ہے جبکہ وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ دعا کا طریقہ ہے جو مختلف روحانی سلاسل میں مروج ہے اور ہر طریقہ میں دعا اللہ سے ہی کی جاتی ہے اورا س کیلئے اسمائے الہٰی یا آیت الہٰی کا ورد کیا جاتا ہے اب اب درج ذیل تحریر پڑھئیے آپ کو ان باتوں کا جواب مل جائے گا۔ایک درویش کے پاس گیا جو کسی خاص ورد میں مصروف تھا بادشاہ نے اس درویش سے اس ورد کی بابت دریافت کیا تو درویش نے بتایا کہ یہ ورد ایک خاص موکل کو فلاں مقصد کے لئے متحرک کرتا ہے،بادشاہ نے درویش سے کہا کہ مجھے بھی اس ورد کی تعلیم دو، تو درویش نے کہا کہ میں ایسا نھیں کر سکتا۔بادشاہ یہ سنکر وہاں سے رخصت ہوا اور کسی اور سے وہی ورد سیکھ کر اس نے اسی درویش کو اپنے دربار میں بلایا اور اسکو کہنے لگا کہ میں نے تیرا ورد کسی اور سے سیکھ تو لیا ہے لیکن جس موکل کا تو نے ذکر کیا تھا وہ نا تو حاضرہوتا ہے اور نا ہی میرا کوئی کام کرتا ہے۔اب تو مجھے بتا کہ ایسا کیوں ہے اور اسکا حل کیا ہے یعنی میں اس ورد کو پڑھنے میں کہاں غلطی کر رہا ہوں اور اگر تو نے مجھے نا بتایا تو سزا کے لئے تیار ہو جا۔درویش یہ بات سن کر مسکرایا اور بادشاہ کے پاس کھڑئے ھوئے سپاھی کو حکم دیا کہ وہ بادشاہ کو فورا گرفتار کر لے۔سپاہی اور بادشاہ دونوں نے حیرت سے درویش کو دیکھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے، شاید بادشاہ کے خوف سے اسکا دماغ الٹ گیا ہے۔
درویش نے ایک مرتبہ پھر انتہائی سخت لہجے میں سپاہی کو حکم دیا کہ وہ بادشاہ کو گرفتار کر لے،مگر سپاھی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نا ہلا۔ بادشاہ کی حیرت اب شدید غصے میں بدل چکی تھی،بادشاہ نے جلال کے عالم میں اسی سپاھی کو حکم دیا کہ اس گستاخ کو فوری گرفتار کر لیا جائے۔یہ سنکر شاھی دربار میں موجود تمام سپاھیوں نے اپنے نیزوں اور تلواروں کا رخ درویش کیطرف کر لیا اور اسے چاروں طرف سے گھیرئے میں لے لیا۔درویش یہ دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔سن بادشاہ جو میں نے اِن سپاھیوں کو کہا اور جو تو نے انکو کہا وہ ایک ہی حکم تھا، الفاظ اور لہجہ سب ایک تھا لیکن میری بات سن کر یہ ایک سپاھی بھی خاموش رہا جبکہ تو نے صرف ایک سپاھی کو حکم دیا تھا لیکن تیرا حکم سن کر دربار میں موجود تمام سپاھی فورا حرکت میں آ گئے اور مجھے ایک آن میں گرفتار کر لیا۔پس فرق حکم کا نھیں ہے بلکہ تیری اور میری حیثیت کا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تیرئے ورد پڑھنے سے وہ موکل حرکت میں کبھی نھیں آئے گا کیونکہ روحانی دنیا میں تیری حیثیت صفر ہے۔سوال یہ نھیں ہے کہ قران میں شفا ہے یا نھیں ہے سوال یہ ہے کہ پڑھنے والا کس کردار کا مالک ہے اور اللہ سے کس قدر قربت رکھتا ہے۔
کتابوں سے کاپی پیسٹ کر کے اعمال کتابوں یا فیسبک پر نقل کر لینے سے کوئی بھی شخص اس دنیا میں تو مشھور ھو سکتا ہے لیکن یہ لازمی نھیں کہ اللہ اسکو لوگوں کی نجات کا وسیلہ بھی منتخب کر لے۔ایسے میں مسئلہ آیات یا نقوش کی روحانیت کا نھیں ہے بلکہ عامل کے اعمال،اسکی نیت اور ایمان کا ہے،کرنی عرفانی بات کی ان درویش نے آپ نے ملاحظہ کیا قارئین میری دعا ہے اللہ پاک ہر مسلمان کلمہ گو کو کسی کا محتاج نہ فرمائے اور ہر کلمہ گو کی جائز حاجت اللہ پاک پوری فرمائے آمین
٭٭٭