اگر ہم سب مل جل کر اپنا احتساب کریں اور ایمانداری پوری سچائی اور خدا کو حاضر ناظر جان کر کریں تو ہم خود محسوس کریں گے کہ منافقت کا مرض معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل گیا ہے۔ ہر بات میں منافقت ہے ،دوسرے رویے اور دوہرے چہرے آپ کے اردگرد اتنی تیزی سے بڑھتے چلے جارہے ہیں ہر معاملے سے زہر تیزی سے گھلتا جارہا ہے۔ مذہب ہو، سیاست ہو، رشتہ داری ہو، کاروبار ہو، دوستی ہو، لین دین ہو منافقت اور ریاکاری معاشرے کے ہر پہلو اور ہر طبقہ میں سرائیت کر گئی ہے۔ آج ساری دنیا وسائل کی کمی کا شکار ہے مہنگائی، بیروزگاری ماحولیاتی آلودگی کے نتیجہ میں سیلاب ،طوفان، زلزلے اور جنگلات میں بے قابو آگ لیکن مہذب معاشرے ان اجتمائی آفات سے نپٹنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد یا ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوئے ان آفات کے نتیجہ میں ہونے والی تکلیفات کو انسانی ہمدردی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے برداشت کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کووڈ وائرس کے عروج پر فوڈ بنک کے ذریعے خوراک کی تقسیم بغیر کسی تعصب اور تاویل کے جاری رہی ہے ،غریب بلکہ متوسط طبقہ کے لوگ ہیں۔ انہی خوراک کے ذخیروں سے مستفیض ہوتے رہے، سفید پوش لوگوں نے بھی قطاریں لگاکر کھانے پینے کے اشیاء حاصل کیں۔ لیکن ہم جو مسلمان کہلانے کے باوجود کوئی ہمدردی یا مروت کے جذبہ سے یکسر محروم ہیں ،ہمارے پاس بخار کی دوا پیراسٹومول کے نرخ دکانداروں نے بڑھا دیئے ،دوا سازوں نے بھی دیر نہیں کی درآمدی کاروبار کرنے والوں نے یہ دوا باہر کے ممالک کو سمگل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو بچوں کی دوائوں میں ملاوٹ کا مرتکب ہے۔ مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں صبح اور عمرہ کی درخواستیں بھی لاکھوں نہیں تو ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ انسانی جانوں سے کھیل کر جو پیسہ بنایا جاتا ہے اسی سے عمرہ اور حج بھی کیا جاتا ہے۔ کیا ہم لوگ اس قابل بھی ہیں کہ محسن انسانیت کی امت کہلا سکیں۔ بڑے بڑے علماء جو خطابات کرتے ہیں سادگی کی تلقین کرتے ہیں اور پراڈو میں سفر کرتے ہیں وہ سیاست دان جو غریبوں کی بات کرتے تھکتے نہیں لیکن خود بڑے بڑے محلات کے مکین ہیں وہ اساتذہ جن کا کردار مشعل راہ ہونا چاہئے وہ کلاس میں نہیں پڑھاتے اسی علم کو وہ ٹیوشن کی بھاری فیس لیکر فروخت کرتے ہیں۔ ڈاکٹرز جو مسیحا ہونے چاہئیں وہ جعلی دوایوں کے کاروبار میں شریک ہو کر پیسہ بنانے کی مشین بن گئے ہیں۔ یہ نہیں کہتا کہ سب ایسے ہیں انہیں ڈاکٹرز میں سے ادلیب رضوی جیسے لوگ بھی شامل ہیں اسی طرح ہر طبقہ میں اچھے لوگ بھی ہیں لیکن آٹے میں نمک برابر۔ آخر کیوں ہم اتنے بے حس کیوں ہوگئے ہیں؟ پیسہ پیسہ پیسہ!! ضرورتیں سب کی ہیں لیکن پیسوں کو دین ایمان بنا کر اسکے لئے سب کچھ کرنے کی ٹھان لینا نہ صرف اپنی ذات سے بلکہ اپنی اہل عیال کے ساتھ دشمنی ہے جو شخص اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کسی کا گلہ یا کسی کا حق مار کر اپنی ضروریات کو پورا کر رہاہے کیا وہ سکون سے رہ رہا ہے یا رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں اسی لئے ہمارے دین میں حقوق العباد کو بہت اہمیت دی گئی ہے اللہ کی ذات تو غفور ورحیم ہے اپنی حکم عدولی کو معاف کرنے کو تیار ہے لیکن کسی اور انسان کی حق تلفی کو معاف کرنے کا اختیار کو اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں اگریہ بات سمجھ لیں تو کوئی کسی کا حق نہیں مارے گا لیکن ہم اگر یہ سمجھ لیں کہ اللہ کی ذات نعوذ باللہ کسی بڑے افسر کی طرح ہے جسے عبادت کی خوشامد یا نذر نیاز کرکے راضی کیا جاسکتا ہے، غریب کی کیا حیثیت ہے ،اس کا حق کمائو اللہ کو راضی رکھو تو وہ کسی بڑی غلط فہمی کا شکار ہے۔ اچھے کپڑے اور اچھی گاڑیاں رکھ کر کوئی اچھا انسان نہیں بن سکتا ،اپنے اردگرد کے لوگوں اپنے نادار رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق پورے کرو یہی حج اکبر ہے سمجھنے والے کیلئے یہی پیغام ہے ورنہ ابلیس سے زیادہ اللہ کی عبادت کسی نے نہیں کی لیکن حکم عدولی کرنے والا آج تلک مطعون ہے۔ تکبر شرک ہے چاہے عبادت کا ہو یا علم کا بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ منافقت اور دوغلے پن کی بیماری کا بری طرح شکار ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے رہنما بھی اسی بیماری میں مبتلا ہیں اور وہ وہی بیماری معاشرے میں پھیلانے کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں ،جھوٹ کو سچ کی پڑیا بنا کر بیجا جارہا ہے اور لوگوں کو تسلی بھی دے رہے ہیں کہ اسی میں ان کی بیماری کا علاج ہے ،بقول بہادر شاہ ظفر کے اسی دنیا کو تو ویرانہ بنایا ہوتا!۔
٭٭٭٭