ہر کمال کو زوال سے۔ انگریزی میں کہتے ہیںEneey thing wtich goup cones ہے، فزکس کا اصول ہے کشش ثقل کی تھیوری کے مطابق ایک وقت تھا کہ فرعون کا عروج تھا جب اس کے ظلم کا عروج ہوا تو اس کا زوال شروع ہوگیا اور اسی کے گھر میں پلنے والا موسیٰ ۖ فرعون سے ٹکرایا اور اللہ نے مدد کی ،اپنے نبی موسیٰ کی اور فرعون اپنی طاقتور فوج سمیت سرخ سمندر میں ڈوب کے مر گیا۔ ایک وقت تھا کہ یزید حکومت میں تھا اور اس کی زبان سے نکلی بات قانون کا درجہ رکھتی تھی لیکن آج امام حسین کے مزار پر تو ہر وقت میلہ رہتا ہے( کربلا) میں لیکن لوگوں کو یزید کی قبر کا اتا پتہ نہیں ،کچرے کے ڈھیر میں قبر گم ہو کر رہ گئی ہے۔ دور خان میں ہٹلر نے جو یہودیوں پر مظلم ڈھائے جس پر انسانیت کی چیخیں نکل گئیں اور پھر ایک دن وہ آیا کہ ہٹلر کو اپنی محبوبہ سمیت خودکشی کرنی پڑ گئی۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے!
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا!
ظلم پھر بھی ہر دور میں زندہ ہے لیکن ظلم کرنے والے ظالم کا نام ونشان نہیں رہتا ہے یہ بات انسانی تاریخ نے ثابت کردی ہے۔ آج جو نہتے فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی بڑی ذمہ داری مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں پر آتی ہے انکی شاہ خرچیاں اور عیاشیاں مسلمانوں کے زوال اور تباہی کی وجہ بن گئی ہے۔دوسرے نمبر پر ذمہ داری مسلمانوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تقسیم کرکے انہیں جمہوری نظام سے دور رکھ کر بادشاہتیں یا ڈکٹیٹر شپ کی بنیاد پر ایسی حکومتوں کو استحکام دیا گیا جہاں کہیں دنیا میں کوئی ایسا حکمران سامنے آیا جس نے مسلمانوں کو متحد کرنے کی سعی کی اسے اپنی ہی مقرر کردہ سپہ سالار کے ذریعے پھانسی دلوا دی گئی(ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت اسی سازش کا نتیجہ تھی) عالمی سطح پر جب بھی کوئی بڑی تبدیلی آتی ہے تو اس سے پہلے بہت بڑی قتل وغار تگری ہوتی ہے لیکن پہلی مرتبہ سے دیکھنے میں آیا ہے کہ جتنا ظلم بالغ انسانوں پر کیا گیا ہے اتنا ہی ظلم بچوں کے سلسلے میں بھی ہوا ہے کوئی اور رعایت نہیں رکھی گئی ہے جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اسکی مذمت میں ہر اول دستہ ان اسرائیلیوں کا ہے جنہوں نے نہ صرف نتن یاہو کی حکومت کے خلاف احتجاج کئے جس کے بعد اسرائیلی حکومت نے اسے احتجاج کو غداری کے مترادف قرار دینے والا قانون لاگو کردیا ہے۔ پھر بھی اس کالے قانون کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف اسرائیل میں نفرت اور مخالفت بڑھتی جارہی ہے۔ ان اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ ہم پر جو ہٹلر نے مظالم ڈھائے ہیں آج ہم اگر فلسطینیوں پر کرینگے تو کیا اس کے نتائج بہتر ہونگے۔ امریکا میں بھی دن بدن نیتن یاہو کے نئے مسائل بڑھتے جارہے ہیں کیونکہ اب امریکی حکومت اور ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل مسلمانوں نے بھی جوبائیڈن پر اپنی بیدردی اکثریت کو سامنے رکھتے ہوئے دبائو بڑھانا شروع کردیا ہے۔ اب تو امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے بھی صاف بتا دیا ہے اپنے ہم منصب اسرائیلی وزیر کو کہ اب فوراً جنگ بندی کی طرف جائیں۔ معصوم بچوں کی اموات اور تشہیر نے امریکہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں کیلئے مسائل کے انبار لگا دیئے ہیں۔ اب ان حکومتوں کیلئے حاموش رہنا نہایت مشکل ہوتا جارہا ہے بلکہ ہوگیا ہے۔ برطانیہ اور فرانس میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو بڑھ چڑھ کر ا سرائیل مخالف احتجاج بڑھتے چلے گئے ہیں۔ امریکہ میں پہلے یہ نسل پرست گوروں کی تنظیمیں یہودی مخالف پروپیگنڈہ کرتی آئیں ہیں اور اگر آبادی کے دوسرے حصوں میں بھی یہی تحاریک چل پڑیں تو مختلف شہروں میں منافرت پر مبنی جذبات سے یہودی عبادت گاہوں کی حفاظت کے موثر انتظامات کرنے پڑینگے۔ پچھلے دنوں کانگریس میں اکلوتی فلسطین نژاد خاتون نمائندہ رشیدہ طالب جو ڈیٹورائٹ کے ڈئیر بورن کی منتخب ایوان نمائندگان کی مہم ہے انہیں اسرائیل مخالف تقریر کرنے پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک تنظیمی قرار داد کے ذریعے وارننگ دیدی گئی ہے۔ نمائندہ رشیدہ طالب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس نے برملا کہا کہ جب امریکی حکومت انسانی حقوق کی بات کرتی ہے تو دوہرا معیار کیوں کیا ہم فلسطینیوں کے لئے الگ قانون ہے؟ کچھ امریکی مسلمانوں کی تنظیموں نے جس میں قابل ذکر خواتین تنظیمیں ہیں انہوں نے کھلا کر یہ دھمکی دیدی ہے کہ اگر بائیڈن حکومت یکطرفہ حمایت جاری رکھیگی تو ہم اگلے انتخابات میں ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کی حمایت کے متعلق سوچنے پر مجبور ہونگے۔ لیکن ٹرمپ تو اپنے داماد کی وجہ سے نتھن یاہو کے بائیڈن سے زیادہ قربت رکھتا ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم(OIC) کا ہنگامی اجلاس پچھلے دنوں ہوا جس میں پندرہ مسلم ممالک نے شرکت کی جس میں غزہ میں فوراً جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا بصورت دیگر تیل کی سپلائی کو روکنے کی تجویز کے علاوہ کچھ اور تجاویز بھی دی گئیں۔ گیارہ اسلامی ممالک بشمول ترکی عراق شام ایران اور یمن نے اتفاق کیا اور چار اسلامی ممالک نے مخالفت کی جس میں سعودی عرب، امارات، اردن اور مصر نے مخالفت کی۔ یاد رہے کہ یہ چار مضبوط کریں اور وسائل سے مالا مال ممالک ہیں تو پھر ہم غیروں کو کیوں مورد الزام ٹھہرائیں۔٭٭٭٭