یروشلم یا القدس شہر یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے یہاں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے یہی شہر مسیح کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔” رومنائزڈ: قبتِ اِسخرا ”یروشلم کے پرانے شہر میں ٹمپل ماونٹ پر مسجد اقصیٰ کے مرکز میں ایک اسلامی مزار ہے۔اس مزار پر ہونے والا کام اسلامی فن تعمیر کا دنیا کا سب سے قدیم زندہ بچ جانے والا کام ہے، قدیم ترین آثار قدیمہ کا تصدیق شدہ مذہبی ڈھانچہ جسے کسی مسلمان حکمران نے تعمیر کیا تھا اور اس کے نوشتہ جات میں اسلام اور اسلامی پیغمبر محمدۖ کی احادیث مبارکہ کندہ ہیں۔ بیت المقدس ، ہمِقدش) ہیکل سلیمانی ہے جو قدیم القدس میں واقع تھا جو موجودہ مسجد اقصیٰ اور قب الصخر کا مقام ہے۔بیت المقدس”سے مراد وہ”مبارک گھر یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جب رومیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔ اب یہاں پر یہودیوں کی دھوکے سے قائم کی گئی ناجائز ریاست کا قبضہ ہے۔ تورات کے مطابق ہیکل سلیمانی یا ہیکل اول محاصرہ یروشلم 587 (قبل مسیح)کے بعد نبو کد نضر کے تباہ کرنے سے پہلے باستانی یروشلم کے بیت ہمقدش میں واقع تھا اور آگے چل کر ہیکل دوم نے چھٹی صدی قبل مسیح میں اس کی جگہ لی تھی۔بائبل میں بتائے گئے اسٹرکچر کے تحت مصور کی بنائی گئی ہیکل اول کی خیالی تصویر۔ عبرانی بائبل بیان کرتا ہے کہ ہیکل متحدہ مملکت اسرائیل و یہودہ کے بادشاہ سلیمان کے دور حکومت میں تعمیر کر کے یہودکے لیے وقف کیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ تابوت سکینہ اسی میں رکھا جاتا تھا۔ یہودی مرخ یوسیفس کہتا ہے کہ ہیکل تعمیر کرنے کے چار سو ستر سال، چھ ماہ اور دس دن بعد جلا دیا گیا تھا۔[1] مقام حرم قدسی شریف (عربی: الحرم القدسی الشریف)قدیم یروشلم کے انتہائی اہم مذہبی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ ہزاروں سال سے ایک مذہبی مقام کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ کم از کم چار مذہبی روایات میں اس مقام کا استعمال مانا جاتا ہے، یہودیت، مسیحیت، رومی مذہب اور اسلام موجودہ دور میں اس مقام پر اموی دور کی تین یادگار عمارتیں ہیں، مسجد اقصیٰ، قب الصخر اور قبہ سلسلہ!
٭٭٭