تحریک انصاف کی جانب سے ایک بار پھر لانگ مارچ کی سیاست کا آغاز کر دیا گیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ اپنے حق میں مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں۔ چند سال قبل 2014 میں عمران خان کی جانب سے اسی طرح کا ایک لانگ مارچ کیا گیا جو لاہور سے اسلام آباد آکر اختتام پذیر ہوا اور اس کے بعد بھی کئی ایسے مراحل آئے جن میں حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر دیکھی گئی۔اس لانگ مارچ میں عمران خان کی حتمی کامیابی حکمران جماعت کو عوام میں غیر مقبول بنانا تھا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے مگر ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ 2014 کے لانگ مارچ میں عمران خان کو عوام کے ساتھ اقتدار کے دروازوں تک پہنچانے والی قوتوں کا بھی بھرپور ساتھ حاصل تھا۔یہ وہی تو بتاتی تھیں جنہوں نے مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے عمران خان کے بیانیے کو نہ صرف پورے پاکستان میں بھرپور انداز میں چلایا بلکہ کہ اس قدر تشہیر کی گئی کہ حکمران جماعت کے لیے اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کا جواب دینا مشکل ہو گیا۔لیکن 2014 کے بعد اب 2022 میں صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ 2014 میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون لانگ مارچ کے بیانیے کو ناکام بنانے کے لیے اگر بر سرِ پیکار تھی تو ان کے سامنے اسٹیبلشمنٹ ایک بہت بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود تھی۔مگر اب صورت حال اس لیے مختلف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ درست حکمران جماعت کے خلاف کام اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زیادہ ہے۔
جن کا کل انہیں ساتھ حاصل تھا آج وہ انہی کے خلاف ہیں۔کل تک جس طرح اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے عمران خان اپنے بیانیے کو فروغ دے رھے تھے اور حکمران جماعت کو غیر مقبول بنانے کے لیے زور لگا رہے تھے آج اسی کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔جن کے کندھوں پر بیٹھ کر عمران خان نے سیاسی آسمان کو چھوا کیا انہیں کے خلاف عمران خان کے لیے اتنا آسان کام ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہوگا بلکہ عمران خان کے لیے یہ لانگ مارچ شاید پاکستان کی تاریخ میں بدل پائے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کی تاریخ بدل دے۔
٭٭٭