دنیا کے بڑے بڑے جمہوری ممالک میں وزارت اعظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والی شخصیات کبھی بھی مستقل مزاج نہیں رکھتی ہیں، وہ عوامی وعدوں اور انتخابی مینڈیٹ کو پورا کرنے کیلئے اقداما ت کرتے ہیں اور ناکامی پر اپنا عہدہ چھوڑ کر دیگر افراد کو موقع فراہم کرتے ہیں، برطانیہ جیسے ملک میں حال ہی میں منتخب ہونے والی خاتون وزیراعظم لز ٹرس نے صرف 45دنوں بعد اپنی ناکامی کو دیکھتے ہوئے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا ، لیکن پاکستان میں عوامی لیڈر بھی ڈکٹیٹر وں کی سوچ کے حامل ہو گئے ہیں ، یعنی وہ کسی صورت عوامی رائے کو ترجیح دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جس طرح ڈکٹیٹر اقتدار پر قابض ہوتا ہے تو جانے کا نام نہیں لیتا ، اسی طرح عوامی لیڈر بھی ڈکٹیٹروں کی سوچ کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں، ہر کوئی اپنے عہدے پر قابض اور پوری طرح گرفت میں لیے ہوئے ہے، عمران حکومت کو عدم اعتماد سے گرانے سے والے اتحادی اب الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں، دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان فوری انتخابات کا نعرہ بلند کررہے ہیں لیکن حکومت ہے کہ اس مطالبے پر کان دھرنے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ عوامی لیڈروں کے ڈکٹیٹرشپ رویوں نے ملک کو بڑے نقصان سے دوچار کر رکھا ہے۔ ہمارے ساتھی ارشد شریف کے المناک قتل کی خبر آئی تو عمران خان صاحب نے اسلام آباد پر یلغار کی تاریخ کا اعلان کردیا۔غالباََ انہیں یہ گماں ہوا کہ قتل نے عوام کی وسیع تر تعداد کے دل ودماغ میں جو سوالات اٹھائے ہیں انہیں برملا بیان کرتے ہوئے ”احتجاجی تحریک” بھرپور انداز میں چلائی جاسکتی ہے۔ ایسا سوچتے ہوئے مگر یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ برجستہ غم و غصہ فقط چند لمحوں تک ہی برقرار رہتا ہے۔ سمندر کی تندوتیز لہریں بھی ساحل تک پہنچنے کے بعد نسبتاًاطمینان سے واپس لوٹ جاتی ہیں۔ اپنے حامیوں کے جوش وخروش کو مزید توانا بنانے کے لئے انہیں 28 اکتوبر کے دن فی الفور اسلام آباد پہنچ جانے کے ارادے کا اظہار کردینا چاہیے تھا۔انہوں نے مگر اس کے لئے آٹھ دن تک پھیلے سفر کا ٹائم ٹیبل طے کردیا۔ ان کے دئے ٹائم ٹیبل کی بدولت ”لانگ مارچ” کی فضا نہ بن پائی جو اپنی منزل تک پہنچنے کو بے قرار اور بے چین نظر آتا ہے۔ میں ”کتنے لوگ تھے؟” والی بحث کو ہمیشہ وقت کا زیاں سمجھتا ہوں۔عمران خان صاحب کے متعصب ترین ناقد کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ فی الوقت ہمارے عوام کے بھاری بھر کم حلقے میں وہ نہایت مقبول ہیں۔ ان کی مخالف جماعتوں میں قائد تحریک انصاف جیسی طلسماتی شخصیت موجود ہی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (نون) میں محترمہ مریم نواز ایک او ر”نڈر اور بے باک” شخصیت ثابت ہوسکتی تھیں۔ان کی جماعت نے حکومت بناکر مگر ان کے امکانات کو گہنا دیا۔ عمران حکومت کو ہٹاکر اقتدار میں آنے کے بعد بلکہ یہ جماعت اب مہنگائی کی اذیت ناک لہر کی ذمہ دار تصور کی جارہی ہے۔ انگریزی میں ایک ترکیب استعمال ہوتی ہے جس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ اپنی قوت کو حد سے زیادہ پھیلانا شروع ہو جائیں تو وہ روٹی کی طرح پتلی ہوجاتی ہے۔میری دانست میں خا ن صاحب نے اپنے ”لانگ مارچ” کو آٹھ دنوں تک پھیلاتے ہوئے ایسی ہی صورتحال بنائی ہے۔”احتجاجی تحریک” کا ماحول بنانے کے بجائے تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچنے سے قبل جی ٹی روڈ پر واقع شہروں اور قصبوں میں محض جلسوں سے خطاب کررہے ہیں جو غروب آفتاب کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ ان کے حامیوں کی خاطر خواہ تعداد ”لانگ مارچ” کے دوران ”پڑائو” والا پیغام ہرگز نہیں دے رہی۔ عمران خان صاحب کی طرح جلسوں کے اختتام پر گھر لوٹ جاتی ہے۔ لانگ مارچ کے شروع ہونے سے اب تک جو ماحول بنا ہے وہ وفاقی حکومت کو یہ سہولت فراہم کررہا ہے کہ عمران خان صاحب جب کسی جلسے سے خطاب کے بعد لاہور کے زمان پارک والے آبائی گھر لوٹ جائیں تو ایسی افواہیں پھیلائے جو اس تاثر کو فروغ دیں کہ لاہور لوٹنے کے بعد عمران صاحب ”مقتدر قوتوں” یا ان کے بھیجے قاصدوں کے ساتھ ”مذاکرات” میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ذاتی طورپر میں ان افواہوں کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔ عمران خان صاحب کے کئی برسوں تک وفادار رہے فیصل واوڈا نے ”منحرف” ہونے کے بعد افواہوں کو پہلی ”تصدیق” فراہم کی۔ علی امین گنڈا پور سے منسوب آڈیو لیک نے ”خونی فساد” کے خوف کو مزید تقویت بخشی۔ فرض کیا مذکورہ خدشے کو ”ٹھوس مواد” فراہم کرتی چند اور لیکس بھی بازار میں آگئیں تو عاشقانِ عمران کی کماحقہ تعداد بھی اسلام آباد داخل ہونے سے پہلے سوبار سوچے گی۔ جمعہ کے روز لاہور سے چل کر عمران خان صاحب کا ”لانگ مارچ” اتوار کی صبح یہ کالم لکھنے تک اسلام آباد میں داخل ہو چکا ہوتا تو افواہیں اپنا اثر کھو دیتیں۔ لوگ بلکہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتے کہ اسلام آباد میں آنے کے بعد عمران خان صاحب 2014ء والا دھرنا دیں گے یا پولیس اور انتظامیہ کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ”ریڈزون” کی جانب چل پڑیں اور یوں وزیر اعظم ہائوس کے اردگرد ”سری لنکا” جیسا ماحول بناتے نظر آئیں۔ مختصراََ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دو دن گزر جانے کے باوجود عمران خان صاحب ابھی تک ”تخت یا تختہ” والا ماحول نہیں بنا پائے۔
٭٭٭