امریکہ کے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کئے ہوئے 4 جولائی کو 246 سال مکمل ہو گئے۔ ان ڈھائی سو برسوں میں نہ صرف یہ دنیا کی طاقتور ترین، ترقی یافتہ اور تارکین وطن کی سب سے بڑی مملکت کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے بلکہ بہترین مواقع و سہولیات زندگی کے حوالے سے دنیا بھر کیلئے پُرکشش ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے اس ملک میں اپنے قیام کے دوران امریکہ کے یوم آزادی کی خوشیوں کا عینی شاہد اور شریک رہا ہوں، اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہاں مقیم تمام امریکی بلا تخصیص مذہب، قومیت، زبان، رنگ و نسل یکساں جذبے و جوش سے 4 جولائی کی خوشیوں کا حصہ ہوتے رہے ہیں اس بار 4 جولائی کو شکاگو میں ہر سال منعقد ہونیوالی ہائی لینڈ پارک کی پریڈ میں دہشتگردی کی واردات نے نہ صرف یوم آزادی کی خوشیوں کو گہنا دیا بلکہ کئی معصوم شہریوں کی جان لینے اور متعدد زخمیوں کی آزادی کی مسرتوں کو لہو سے رنگ دیا ہے۔ اس خوں آشام واردات کے بعد ریاست بھر میں یوم آزادی کی تمام تقاریب منسوخ کر دی گئیں اور نغمۂ شادمانی نوحۂ غم میں تبدیل ہو گیا۔ ہماری ان سطور کے لکھے جانے تک اس واردات کے واضح محرکات سامنے نہیں آسکے ہیں البتہ ایک سفید فام نوجوان کو ملوث قرار دیا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حالات کن وجوہات کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں خوشحال، مقتدرین اور بہترین وسائل، نظم و ضبط، انتظامی و سیکیورٹی کے باوجود اس قسم کے واقعات کیوں ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ امریکی و دیگر ترقی یافتہ ممالک و تھنک ٹینکس عموماً اس قسم کا پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک دہشتگردی اور محاذ آرائی میں ملوث رہتے ہیں۔ پاکستان، افغانستان، ایران اور متعدد اسلامی ممالک کو بالخصوص دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے۔ اگر یہی حقیقت ہے تو آسٹریلیا، یورپ، بھارت اور خود امریکہ میں پے درپے ہونیوالے اسلاموفوبیا، مذہبی، سیاسی، فرقۂ وارانہ، رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونیوالے واقعات کو ہم کیا نام دینگے۔ امریکہ میں دہشتگردی کے سلسلے اس حد تک بڑھ چکے ہیںکہ مذہبی عبادت گاہیں، اسپتال اور تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں ہیں جس کے نتیجے میں حکومت کو گن کنٹرول کا نیا قانون نافذ کرنا پڑا ہے۔ درحقیقت دنیا کے ایک گلوبل ولیج بننے کیساتھ جہاں آگہی اور آزادیٔ اظہار نیز ابلاغ کو فروغ ملا ہے وہیں عدم برداشت، یا وہ گوئی، منافرت اور مادر پدر آزادی کا زہر ساری دنیا اور ہر معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ فرد سے لے کر معاشروں اور ممالک تک یہی زہر بربادی کا سبب بنا ہو اہے اور اس سے مفر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ البتہ ایک فرق ضرور نظر آتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی مخالفت و منافرت کی حدود متعین ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں سیاسی اشرافیہ، اخلاقی و انسانی حدود کو پھلانگتے ہوئے ریڈ لائن کا بھی خیال نہیں کرتی۔ وطن عزیز پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اس تصویر کا واضح عکاس ہے جہاں ہمارے سیاسی پنڈتوں، میڈیا، سوشل میڈیا نے نہ صرف سیاسی و اخلاقی پستیوں کی انتہائوں کو چُھو لیا ہے بلکہ منافرت، الزام تراشی اور غلیظ انداز گفتگو کو آرڈر آف دی ڈے بنایا ہوا ہے۔ ہم اپنے گزشتہ کالموں میں مسلسل اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ نفرت کا یہ زہر قوم کے ہر فرد، ہر گھرانے اور ہر طبقہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، اس وقت صورتحال اسی نوبت کو پہنچ چکی ہے۔
پنجاب کی غیر یقینی اور آئین سے ماورائی صورتحال میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں ہونیوالے ضمنی انتخاب کیلئے حکومتی اور مخالف رہنمائوں، ان کے حامی میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کی زبان، نفرت انگیزی اور تہمت طرازی غلاظت کی ہر حد پار کر چکی ہے۔ حق اور سچ کہنے والے میڈیا کے سینئر ترین ایاز امیر جیسے صحافیوں پر حملے کرائے جا رہے ہیں تو صابر شاکر، عمران ریاض جیسے اینکرز پرمقدمے درج کرنے کسیاتھ جان سے جانے کی دھمکیاں بھی ریکارڈ پر ہیں۔ گھریلو با عزت خواتین پر تہمت طرازیاں اور مخالفین کیلئے وہ لچر زبان استعمال کی جا رہی ہے جو مہذب گھروں میں کیا محلوں میں گلیوں میں بھی استعمال نہیں ہوتی ہیں۔ یہ سب محض اس وجہ سے ہے کہ پنجاب کے ضمنی انتخاب اگلے عام انتخابات میں کامیابی کا دروازہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس محاذ آرائی میں سبقت اور ہر صورت کامیابی کیلئے ہر دو فریقین تمام حربے کام میں لا رہے ہیں۔ بادیٔ النظر میں عمران خان کے اپنے مضبوط و مستحکم بیانیئے اور بھرپور عوامی سپورٹ کی وجہ سے مخالفین کیلئے انتخابات انتہائی اہم ہیں اس لئے بھی کہ اگر ان ضمنی انتخابات میں نواز لیگ نہ جیت سکی تو نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق سے بھی اس کا پتہ کٹ جائیگا۔ اپنی کامیابی اور اقتدار کے تسلسل کیلئے ن لیگ اور اس کے حواری میڈیا اور بلاگر جن اوچھی حرکتوں، فحش گوئی اور الزامات پراُتر آئے ہیں وہ تہذیب و انسانیت کے ہر معیار سے غلاظت ہی ہیں۔ اپنے پروپیگنڈے میں انہوں نے عمران خان ہی نہیں اس کی اہلیہ پر بھی ہرزہ سرائی اور گند اُچھالنے پر کوئی کسر نہ چھوڑی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ عمران اور پی ٹی آئی کو کسی بھی طرح دیوار سے لگا دیا جائے۔
17 جولائی کے ہونیوالے ضمنی انتخابات کی اہمیت کے پیش نظر اور پنجاب میں بالخصوص نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان رسہ کشی کی کشیدہ ترین صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں خدشہ ہے کہ حالات موجودہ بدطرح صورتحال سے بدترین کی طرف نہ چلے جائیں۔ عمران خان کا الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد اور انتخابات کی شفافیت پر تحفظات، نواز لیگ کے ایک جانب عمران کے توشہ خانہ و دیگر الزامات پر پروپیگنڈہ و ریفرنسز کا عندیہ اور دوسری جانب پنجاب کی انتظامیہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیساتھ،عوام کو رجھانے کیلئے مختلف اعلانات و اقدامات سیاسی کشیدگی اور ابتری کے حالات کی پیشگوئی نظر آرہے ہیں اور ان حالات میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، عوامی رد عمل کی صورتحال سے آنیوالا وقت نہ سیاسی طور پر خوش کُن نظر آرہا ہے اور نہ ہی معاشرتی و معاشی بہتری کی نوید سنا رہا ہے اور اس کی مرکزی وجہ وہی عدم برداشت، تنفر اور منتقم مزاجی ہے جس نے امریکہ و پاکستان سمیت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
٭٭٭