قارئین قرآن مجید میں ارشاد ہے ہل جزا الاحسان الا الاحسان ،انگریزی میں کہاجاتا ہے Tit for Tat ،اردو میں کہتے ہیں کر بھلا ہو بھلا ، بعض لوگ حاتم فطرت ہوتے ہیں اللہ بھی انہیں نواز دیتا ہے ۔ بعض لو گ بخل کرتے ہیں ،اللہ بھی انکو دینے میں کمی کردیتا ہے، وہ لو گ جنہوں نے دین کی خدمت کی ہو ، خدمت خلق کی ہو ، انکے بچوں کی اصلاح وقابلیت کی شکل میں اللہ عنایت فرماتا ہے ۔ انسان کا معیارکامرانی یہ ہے کہ خود لوگوں کا دست نگر نہ ہو ۔ اپنی دنیا و آخرت برباد نہ کر بیٹھے ۔ بچے لائق بھی ہو ں اور نیک بھی ۔ اگر لائق ہیں اور نیک نہیں تو عاقبت خراب۔ اگر نیک ہیں اور لائق نہیں تو دنیا خراب ، مجھے اپنے گائوں کے بابا حاجی ملک محمد حیات سیکرٹری یاد آگئے ۔ جو ہر ایک سے سر کھجاتے ہوئے چندہ مانگتے تھے ۔ لوگ انکی بے عزتی کرتے تھے ۔ وہ کبھی کبھی گھبرا بھی جاتے تھے ۔ میں جب استاد تھااو ر تعلیمی مصروفیا ت کے دوران چھٹی پر گائوں آیا تو گلہ کرنے لگے، میں نے کہا گلہ نہ کریں، آج آپکے بیٹے گزٹڈ آفیسرز بنے ،دودوسرے بھی بزنس مین ہیں ۔ آج آپ گائوں کے امیر ترین انسان شمار ہورہے ہیں۔ اللہ آپکو آپکی اولاد کی لیاقت کی صورت میں بدلہ دے رہا ہے ۔ قارئین ضروری نہیں انسان کو خود بدلہ ملے ۔ کبھی اولا د کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے ۔ آج ہم دیکھتے ہیں گائوں میں بابا حیات سیکرٹر ی مرحوم کا نام بام عروج پر ہے ۔ آجکل مغرب خاص طور پر نارتھ امریکہ میں پیسے کی دوڑ جاری وساری ہے ۔ بدزبانی کا رواج ہے ۔ بخل بڑھ رہا ہے ، کنجوسی عروج پر ہے ۔ دنیا کی دوڑ لگی ہے۔ دین کو پشت دکھائی جا رہی ہے، نہ آرام میسر ہے نہ سکون،نہ نماز کیلئے وقت ہے اور نہ قرآن کے لئے۔نہ والدین کے لیے وقت ہے اور نہ اولاد کے لئے۔خالق و مخلوق نظر انداز ہو رہی ہے۔ اللہ کے لیے نہ ٹائم نکل رہا ہے نہ ہی پیسہ ۔ رقص و سرور کے لیے ہزاروں دینے والے مسجدوں کو ایک ڈالر دینے سے گھبرارہے ہیں ۔ علما کو دینے کے لیے کوئی نہیں۔ ایکٹرز کی تجوریا ں بھری جارہی ہیں ۔ یاد رکھیے اللہ کے دین کے لیے کی گئی خدمت رائیگاں نہیں جائیگی ۔بچپن کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ ہمارے خوشاب میں استاد انوالے محلہ میں استادانوالی مسجد میں ہم جاتے تھے یہ اہل سنت کی مسجد تھی مگر شیعہ بھی وہاں نماز پڑھتے تھے۔ استادا نوالی مسجد کے مولوی نذیر صاحب ، مولوی غلام حسن صاحب ،جوحافظ استاد نذیر حافظ استاد غلام حسن کے نام سے معروف تھے بغیر مذہبی تعصب کے سب کی خدمت کرتے تھے۔ آج ان بزرگوں کے فرزندان حافظ مسعود اور حافظ عبدالباسط کی شکل میں پاکستان اور امریکہ میں مذہبی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اور دنیاوی طور پر بھی وہ اور انکے کزنز ٹاپ پر ہیں ۔ ایم این اے اور ایم پی اے سے کم اسٹیٹس ان لوگوں کا خوشاب میں نہیں ہے اور قرآن کی خدمت کی تو کوئی نظیر نہیں۔ یہ چند مثالیں میں نے اس لیے لکھی ہیں کہ دینی خدمت انجام دینے والے گھبرائیں نہیں اور نہ ہی ہمت چھوڑیں ۔ قارئین مراکز دین کی خدمت نہ کیجئے ، کسی کی تذلیل نہ کیجئے ، تعصب نہ رکھئیے سخاوت سے رہیئے ،گالی گلوچ سے بچیے ۔دوسروں کو نیچا نہ دکھائیے انشااللہ۔اللہ آپکی خدمت کو ضائع نہ کرئے گا ۔ قلب کا ظمی جیسے ہزاروں نیک ایسے ہیں جنہیں اللہ جزائے خیر دے رہا ہے۔ قلت وقت کے باعث میں نے چند ہی مثالوں پر اکتفا کیا ہے۔ ورنہ اس موضوع پرضحیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔کالم ختم کرنے کے لئے قلم رکھا ہی تھا کہ خیال آیا کہ جب 1991 میں منہیٹن کے کشمیر ریسٹورنٹ میں ڈاکٹر مظہر ملک نے مجھے بلایا تھا جہاں اس وقت کے کرکٹر اور اس وقت کے محبوب اپوزیشن لیڈر عمران خان اور چیف جسٹس وفاقی شرعی کورٹ مرحوم پیر کرم شاہ الازہری میرے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے تھے اور ہم تینوں نے پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ تو کبھی سوچا نہ تھا عمران خان ایک زمانہ میں وزیر اعظم بن جائیں گے ۔اس لئے نہ ان میں سیاسی سوجھ بوجھ تھی اور نہ ذوق تھا۔میرے خیال میں اپنی والدہ کی یاد میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے قیام اور دکھی انسانیت کی خدمت کے عوض اللہ نے انہیں اس منصب سے نواز دیا۔اور جدی پشتی وڈیرے ، امیر اور غریب عوام کی دولت لوٹنے کے عوض سلاخوں کے پیچھے چلے گئے تھے ۔ اس لئے ہر انسان کو جو عمل انجام دینا چاہئے اس کے رد عمل کی امید رکھنی چاہئے۔میں تو گائوں کا رہنے والا ہوں کبھی یہ نہیں دیکھا گندم بیجیں اور چاول کاشت کریں۔جو لوگ لوٹ کھسوٹ بو رہے ہیں وہ لوگ خیر کیسے کاٹیں گے ؟ جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔اگرچہ حضور پاک کا ارشاد ہے الدنیا مزرعت الاخرہ۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے تاہم قدرت اس کھیتی کے خوشے کبھی دنیا میں بھی دکھا دیتی ہے۔شاہ ایران ، صدام حسین اور قذافی ، ضیا الحق وغیرہ کی رخصتی اور امام خمینی جیسے مظلوموں کی واپسی بھی اس کی مثالیں ہیں۔جہاں کر بھلا ہو بھلا مثالوں کی کمی نہیں وہاں اس امر کی بھی کمی نہیں کہ
عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
بھلا کرتے رہیے ، تھکیے نہیں ۔ امید رکھئے
سچ ہے کر بھلا ہو بھلا
٭٭٭