چڑھتی رہی مزار پہ چادر تو بیشمار
باہر ایک فقیر تھا وہ سردی سے مر گیا
روٹی حکمرانوں کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب شہر کے بچوں میں پڑ گیا
چہرہ بتا رہا تھا مارا ہے بھوک نے
حاکم نے کہہ دیا کچھ کھا کے مر گیا
خوددار میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا
راشن تو بٹ رہا تھا وہ فوٹو سے ڈر گیا
سیلاب کی تباہ کاریوں نے پوری پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے،پورے پورے اضلاع پانی میں ڈوبے ہیں اورحکمران جینڈر بل کی منظوری میں مصروف ہیں۔سیلاب اور آفتیں نہیں آئیں گی تو اور کیا ہوگا۔سیلاب متاثرین کی امداد میں سب سے آگے الخدمت کے رضاکار پیش پیش ہیں جو نشیبی علاقوں سے عوام کو شروع دن سے نکلالنے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔الخدمت فائونڈیشن متاثرین میں کھانا،خشک اناج، خیمے ، پانی، ادویات فراہم کررہے ہیں۔ بیماریاں پھیلنے سے لوگ پریشان ہیں،الخدمت کے ڈاکٹروں کی ٹیمیں جگہ جگہ موبائل ڈسپینسریز مریضوں کے علاج معالجے میں دن رات مصروف ہیں۔عمران خان نے تین بار ٹیلی تھان کا اہتمام کیا، اربوں روپیہ جمع کیا لیکن ہمیں انکے ٹائیگرز سوشل میڈیا کے علاوہ میدان عمل میں کہیں نظر نہیں آئے۔عمران خان بیس ٹرکوں پر مشتمل امدادی قافلہ لیکرتونسہ شریف پہنچے ، پانی کے اندر اپنے جوتے اور شلوار گیلے کئے ،فوٹو سیشن کیا اور امداد تقسیم کئے بغیر بمعہ ٹرک واپس آگئے ۔ علاقے کے متاثرین ٹرکوں کے پیچھے بھاگتے رہے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پانچ ٹرکوں کا سامان بیس ٹرکوں میں ڈا ل کر فوٹو شوٹ کیا گیا اور ٹرک امداد تقسیم کئے بغیر واپس چلے گئے۔ پریشان حال لوگوں کا امداد کے نام پر تمسخر اپوزیشن اور حکمرانوں کا شیوہ رہاہے۔ جماعت اسلامی کے کارکن قیام پاکستان سے آج تک ۔ ہر قدرتی آفت زلزلہ اور سیلاب میں قوم کی امداد کیلئے ہر وقت میدان میں نکل پڑتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جو قوم کے دکھ درد پر مرحم رکھتے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے مخافظ ہیں۔ ختم نبوت کے حقیقی جانثار ہیں۔ جو ھمیشہ قوم کے ساتھ ہر مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ حالانکہ جاہل عوام ان محب وطن، ایمان دار خدمت خلق کے رضاکاروں کوووٹ نہیں دیتے۔ ووٹ چوروں، ڈاکوں، بابوں۔ مذہبی منافرت پھیلانے والوں اور نظریہ پاکستان کے دشمنوں کو دیتے ہیں۔ اسکے باوجود بلا رنگ ونسل، بغیر سیاسی اور مذہبی تفریق کے ضرورتمندوں کے دروازے تک پہنچتے ہیں۔نہ ریاست مدینہ کے نام کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور نہ اپنے کام کو جتاتے ہیں ۔ دکھی انسانیت کا ہاتھ تھامتے ہیں۔ اللہ بارک الخدمت اور جماعت اسلامی رضاکاروں کو اس عظیم مشن کا اجر عطا فرمائے۔آمین! اپوزیشن اور پی ڈی ایم کو آرمی چیف کی تعیناتی پر الجھن ہے ۔عوام سیلاب اور بیماریوں سے مر رہے ہیں ۔سیاستدانوں کی آپس میں رنجشیں اور تنا نے عوام کو تکلیف میں دھکیل دیا ھے۔منفی اور گھیرا جلا کی سیاست کرنے والے مولانا فضل الرحمن۔ اے این پی۔ ایم کیو ایم۔ تحریک لبیک والے سیلاب کی تباہ کاریوں مئں کہیں نظر نہئں آئے۔ نہ انکے کارکن اور نہ ہی لیڈر کہیں نظر آرہے ہیں ۔نالائق حکمران۔ بدمعاش مافیا۔ جاہل اپوزیشن۔ مظلوم اور بیووقوف عوام۔بلوں کی بھر مار۔ مہنگائی کا طوفان آٹا،گھی، دودھ اور ضروریات زندگی کی اشیا عوام کء پہنچ سے دور۔
عمران خان کے سوشل میڈیا ٹائیگرز ٹیلی تھان اور عمران کو سیلاب کی مد میں اربوں روپیہ بتایا جارہا ہے۔ جو سوشل میڈیا کے علاوہ کسی صوبے، شہر یا دیہات میں تقسیم ھوتا ھوا دکھائی نہئں دیا۔ البتہ سوشل میڈیا پر عمران کے گیلے جوتے اور گیلی شلوار کے تذکرے ضرور کئے جارہے ہیں۔ کیا عمران خان سیلاب متاثرین کی امداد اس وقت کرینگے جب پانچ ہزار مزید اموات ھو چکی ھونگی۔ خدارا لوگوں کی مدد کے لئے آگے آئیں ۔ ایکدوسرے کو گرانے کے چکر میں متاثرین سیلاب کو اذیت نہ پہنچائیں۔
قارئین ! گیسٹرو، ڈینگی ،ہیضہ اور پیٹ کی بیماریوں سے ہر صوبہ میں بیسیوں اموات کی اطلاعات آرھی ہیں ۔ نہ حکومت اور اپوزیشنکی طرف سے کوئی مدد پہنچ رھی ہے۔ملک شدید مالی دبا میں ہے۔حالات انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ جو بے قابو ھوسکتے ہیں۔ اسلئے ذمہ دار حلقوں کو عوام کے غم وغصہ کا ابھی سے ادراک کر لینا چاہئے ، تاکہ حالات کی سنگینی سے پہلے عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ ھم لوگ بیرون ملک چودہ اگست (یوم آزادی )انتہائی شان و شوکت سے مناتے ہیں۔ آزادی کس۔ چیز کی ؟۔ ھم تو ابھی بھی کرپٹ مافیا کے غلام ہیں ۔سسٹم کے غلام ہیں۔ چوروں،لٹیروں، قاتلوں کے غلام ہیں ۔ھم آزاد تب ھونگے جب عام آدمی کو انصاف ملے گا۔ تھانے بدمعاش خانے نہئں ھونگے۔جب آفیسرز عام عوام کے لئے مسیحا اور رحمت ثابت ھونگے ۔ تب ھم غلامی سے نجات حاصل کرینگے۔
ایسی آزادی نہیں کہ ایک طرف امریکہ کی غلامی Absolutely not کہا جائے رجیم چینج میں ملوث کہا جائے ۔ مگر دوسری طرف امریکنز کو وضاحتیں پیش کی جائیں۔ملاقاتیں کی جائیں ۔
ایک طرف آرمی کو تسلسل سے گالیاں دی جائیں ۔ دوسری طرف بیک ڈور ملاقاتوں کی ڈپلومیسی بھی جاری رہے۔ قوم کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن کر نہ دکھایا جائے۔ نوجوانوں کے جذبات برانگیختہ نہ کیے جائیں۔مذہبی کارڈ استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ اور ایک دوسرے کو متعون کرنے کے لئے مذہبی منافرت سے پرہیز کیا جائے۔ عوام کو بھی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ مصیبت کی گھڑی میں جو عوام کے درمیان نہئں آئے انکو آئیندہ الیکشن میں نظرانداز کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔
پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی جہاں موقع ملے مذہب استعمال کرنے میں حد سے تجاوز کرت ہیں۔ جو ملکی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔عمران خان گذشتہ چار سال اے ریاست مدینہ کا نام استعمال کررہے ہیں۔ مخالفین اسکے توڑ کے لئے اسکا ماضی اور slip of tongue کو سیاسی weapon کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ دونوں طرف سے sectarianism کو ھوا دی جارھی ہے۔
اسمبلی میں سبھی بدمعاش قرآن و سنت کے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ اسمبلی سے باہر نفرت نفرت کھیلتے ہیں۔
قوم کو ان ذہنی بیماروں سے چھٹکارا دلانا ھم سب کا فرض ہے۔ جھوٹے نعروں اور تبدیلی کے خوابوں کے چکر میں نہ پڑیں۔ اس وقت ریلیف کی ضرورت ہے۔ کھانے اور کپڑوں کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے گھروں کی مرمت کی ضرورت ہے۔
پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے کارکن اپنے جذبات قابو رکھیں ۔ ایکدوسرے کے خلاف انرجی استعمال کرنے کی بجائے حرمت رسول اور سیلاب متاثرین کے لیے سنبھال رکھیں ۔انہیں کسی کو شیطان اور کسی کو فرشتہ ثابت کرنے سے زیادہ سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے وقت دینا چاہئے ۔کسی کو اقتدار میں لانے اور ہٹانے سے عاقبت نہیں سنورے گی۔ عاقبت بنانی ہے تو ایماندار، دیانتدار لوگوں کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ ناکہ اقتدار کے بھوکوں کے۔
آئیے سب ملکر خدمت خلق کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ سیلاب کی ہولناکیوں میں اجڑے ھوئے اپنے گھروں کو واپس جاسکیں۔عبادت خدا کی ۔اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خدمت مخلوق خدا کی ۔یہی اللہ کریم ۔ محمد مصطفے اور قرآن کا پیغام ہے ۔
٭٭٭