لغو بیانی امریکی صدور کا خاصہ رہا ہے!!!

0
61
حیدر علی
حیدر علی

گذشتہ منگل کی شام جب غزہ کے الاہلی اسپتال کا عملہ اسرائیلی قتل عام سے زخمی ہو نے والے فلسطینیوں کی ایمرجنسی سرجری کرنے میں مصروف تھا کہ ایک زوردار دھماکے سے اسپتال کی عمارت زمین دوز ہوگئی . اسپتال کے عملے جن میں ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرا میڈکس کے افراد کے علاوہ ہزاروں پناہ گزین جو اسرائیلی بمباری سے محفوظ رہنے کیلئے وہاں پناہ لی تھی سب کے سب ملبے تلے دب گئے . دھماکے سے لوگوں کے پرخچے فضا میں اُڑ گئے، شیر خوار بچوں کی لاشیں بجلیوں کے تاروں یا قریبی عمارتوں کی چھتوں پر پہنچ گئیں. اسپتال میں ایک کہرام مچ گیا، ہر جانب سے آہ و بکا کی آواز بلند ہونے لگیں. دھماکہ اسرائیلی راکٹ کی اسپتال کی عمارت کو نشانہ لگانے کے نتیجے میں ہوا تھا، اعدادو شمار کے مطابق 500 سے زائد افراد نے جام شہادت نوش کیا اور اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تقریبا” چار ہزار فلسطینی ہلاک اور دس ہزار زخمی ہوچکے ہیں. غزہ میں اسرائیلی بمباری کے شروع ہونے کے چند لمحہ بعد ہی الاہلی اسپتال کے حکام کو اسرائیلی فوجیوں سے متواتر وارننگز مل رہی تھیں کہ وہ اسپتال کو بند کرکے سارے پناہ گزینوں کو وہاں سے نکال باہر کردیں. اسپتال کے حکام نے اِسے یہودیوں کی ایک گیدڑ بھبکی جانا ، اور اسپتال کو کھلا رکھنا انسانی تقاضے کا ایک فرض سمجھا. الاہلی اسپتال پر اسرائیلی بمباری نہ صرف جنگی جرائم کے مرتکب ہونے بلکہ اِس کی وجہ کر فلسطینیوں کو علاج و معالجہ سے محروم رکھنا بھی مقصود ہے. غزہ کے دوسرے اسپتالوں میں ڈاکٹرز سیڑھیوں اور صحنوں پر ضرورتمندوں کا آپریشن کر رہے ہیں. خدشہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں مریض میڈیکل سپلائی ، ضروری دوائیں، پانی اور بجلی کی نا فراہمی کی وجہ کر موت کی آغوش میں سو جائینگے.اسرائیل نے مکمل طور پر غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے. الاہلی اسپتال کے زخمی ہونے والوں کو غزہ کے اُن دوسرے اسپتالوں میں لے جایا گیا ہے جو دو ہفتے سے اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونے والوں سے بھرا پڑا ہے. یہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بن گیا ہے. مضحکہ خیز امر ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن بغیر کسی تحقیقات کے الاہلی اسپتال پر راکٹ حملے کا ذمہ دار فلسطین کے اسلامی جہاد نامی تنظیم کے سر تھونپ دیا ہے. اِس طرح کے جانبدارانہ فیصلہ ، بغیر کسی شواہد کے کسی فریق کی حمایت کرنا، ذاتی فوائد کیلئے مائنڈ سیٹ کرلینا امریکی صدور کا خاصہ رہا ہے. ماضی بعید میں سابق امریکی صدر جارج بش نے بھی عراق کے صدر صدام حسین پر کثیر الجہت تباہی کے ہتھیار رکھنے کا الزام عائد کیا تھا، اور اُن کے سیکرٹری آف اسٹیٹ کولین پاول نے اقوام متحدہ میں حلفیہ طور اِس کی تائید کی تھی. لیکن جب عراق کی جنگ ختم ہوگئی اور اقوام متحدہ کے ایٹمی اسلحہ اور کیمیکل گیس کے تحقیقات کار عراق کے چپے چپے میں اِس کی تلاشی لی تو اُنہیں کوئی شواہد بھی نہ مل سکے. امریکی صدر جو بائیڈن بھی اِسی طرح کی حماقت کے مرتکب ہورہے ہیں. امداد جو امریکی سیاستدانوں کو غیر یہودیوں سے ملتی ہے اُسکی رقمیں پچاس یا سو ڈالر کی ہوتیں ہیں، لیکن جب کوئی یہودی کسی سیاستدان کو اپنی ذرہ نوازی سے نوازتا ہے تو اُسکی رقم پانچ ہزار یا دس ہزار ڈالر ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ امریکی سیاستدانوں نے اسرائیل کی حمایت کرنے میں لائنیں لگادیں ہیں، جس کسی گورنر یا کانگریس مین کو دیکھئیے وہ اپنی وفاداری فروخت کرنے کیلئے اسرائیل کا سفر کر رہا ہے. اسرائیل کا سفر کامیاب اِس کا مطلب عطیے کی آمدکی یقین دہانیاں، نیویارک ٹائمز واشنگٹن پوسٹ ، اے بی سی اور سی بی ایس چینلز کی سرپرستی حاصل کر نے کی ضمانت . صدر امریکا جو بائیڈن جو ایک

مصروف ترین انسا ن شمار کئے جاتے ہیں جو ایک ساتھ دو جنگوں کے شکست خوردہ کمانڈر ہیں ، جن کے مشورے یا رائے سے آدھا یوکرین روس کے ماتحت چلا گیا ہے ، دوسری جانب اسرائیل اب پُرامن قابل رہائش ملک نہیں رہا، درجنوں چارٹرڈ طیارے اسرائیلیوں کو بھر کر تل ابیب سے امریکا لارہے ہیں. پہلے کسی کے تصور میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اسرائیلی بھی مائیگرنٹ بن کر در بدر مارے مارے پھرینگے، لیکن اب اُن کی باری بھی آگئی ہے.
بہرکیف صدر امریکا جو بائیڈن اسرائیل کا رخت سفر باندھ لیا ہے. وہ وہاں جاکر جو کچھ بھی کرینگے اُس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا. وہ نتن یاہو کو شاباشی بھی دے سکتے ہیں کہ اُس نے غزہ کے مظلوم عوام کو جن کا مقدر اسرائیل کے غیظ وغصب اور فرعونیت کا نشانہ بننا بن گیا ہے ، اُس نے اُنہیں ایک دفعہ پھر آگ وشعلہ ، زہریلی گیس اور ٹینک کے گولوںکی زد میں ہیںدھکیل دہے. جو بائیڈن اُسے کہینگے کہ تم نے جوکچھ کیا ہے ہم اُس کی تائید کرتے ہیں. تمہیں کوئی جنگی جرائم کی سزا نہیں بھگتنی پڑے گی. تاہم صدر بائیڈن اُس سے یہ بھی بھیک مانگ سکتے ہیں کہ وہ فوری طور پر غزہ پر حملہ کرنے کی مزید کوشش نہ کرے اور جنگ بندی کا معاہدہ کرلے.حالات واضح ہیں کہ صدر جو بائیڈن نے کیا اقدام اٹھایا ہے.
خوش آئند حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں مقیم یہودی بھی غزہ کی جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں. ایوان کانگریس میں وہ مداخلت کرکے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں. امریکا کا شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں غزہ کی جنگ کے خلاف مظاہرہ نہ کیا گیا ہو. گذشتہ منگل کے دِن اسٹوریا کے اسٹائین وے پر غزہ کی جنگ کیخلاف ایک عظیم الشان مظاہرہ کیا گیا جس میں بھاری تعداد میں عرب، پاکستانی، گورے امریکی اور یہودیوں نے بھی حصہ لیا تھا. اِس طرح کے مظاہروں کے اثرات ایوان بالا تک پہنچ جاتے ہیں.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here