نیویارک (پاکستان نیوز) پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے ویٹو کے حق کو ختم کرنے یا اس کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ محدود کرنے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ 15 رکنی کونسل کو دنیا کے بڑھتے ہوئے پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مؤثر بنایا جا سکے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر منیر اکرم نے سلامتی کونسل کی تشکیل نو کے لیے جاری تعطل شدہ بین الحکومتی مذاکرات (آئی جی این) کے دوبارہ آغاز پر وفود سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “یہ ویٹو کا استعمال یا ویٹو کی دھمکی ہی ہے جو سلامتی کونسل کی جانب سے بین الاقوامی امن و سلامتی کو درپیش خطرات یا ان کی خلاف ورزیوں پر فیصلہ کن عمل کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔انہوں نے مزید کہا لہٰذا، کونسل کو مزید مؤثر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مستقل اراکین کے ویٹو کے حقوق کو ختم کیا جائے یا کم از کم اس کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ محدود کیا جائے۔اس حوالے سے پاکستانی مندوب نے کہا کہ ایک توسیع شدہ کونسل میں اضافی ریاستوں کو ویٹو کے حقوق دینا مسئلے میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور دیگر کئی رکن ممالک نے سلامتی کونسل میں نئے “مستقل” اراکین کی شمولیت کی مخالفت کی ہے۔سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لیے مکمل مذاکرات جنرل اسمبلی میں فروری 2009 میں پانچ اہم نکات پر شروع کیے گئے تھے تاہم، سلامتی کونسل میں اصلاحات کی کوششیں اب بھی رکی ہوئی ہیں کیونکہ جیـ4 ممالک ـ بھارت، برازیل، جرمنی، اور جاپان ـ مستقل نشستوں کے لیے زور دے رہے ہیں، جبکہ اٹلی اور پاکستان کی قیادت میں “یونائیٹنگ فار کانسنس(Uniting for Consensus)” (یو ایف سی) گروپ کسی بھی اضافی مستقل نشستوں کی مخالفت کر رہا ہے۔بطور مصالحت، یو ایف سی نے اراکین کے ایک نئے زمرے کی تجویز پیش کی ہے – جو مستقل نہیں ہوں گے – لیکن ان کی مدت طویل ہوگی اور دوبارہ انتخاب کا امکان ہوگا۔فی الحال، سلامتی کونسل میں پانچ مستقل اراکین – برطانیہ، چین، فرانس، روس، اور امریکہ – اور 10 غیر مستقل اراکین شامل ہیں جنہیں دو سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔اپنے خطاب میں سفیر اکرم نے سلامتی کونسل میں مستقل اور غیر مستقل اراکین کے درمیان اثر و رسوخ کے توازن کو حل کرنے کے مطالبے کی حمایت کی۔انہوں نے ایسے حالات میں ویٹو کے استعمال کو محدود کرنے کی تجاویز کی حمایت کی جہاں بڑے پیمانے پر مظالم، جیسے نسل کشی، ہو رہی ہو اور کہا کہ جنرل اسمبلی کو ویٹو کے استعمال کی صورت میں زیادہ ذمہ داری لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں، انہوں نے لیخٹنسٹائن کی “ویٹو انیشیٹو” (Liechtenstein’s ”veto initiative”) پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جس کے تحت 193 رکنی اسمبلی کو ویٹو کیے گئے معاملے پر اپنی رائے دینے کا پابند بنایا جائے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ پانچ مستقل اراکین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے کونسل میں مزید غیر مستقل اراکین کا اضافہ ایک مؤثر قدم ہو سکتا ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ قراردادوں کی منظوری کے لیے زیادہ اراکین کی حمایت درکار ہو، جس سے غیر مستقل اراکین کو عملی طور پر ایک متوازن ویٹو کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔مزید برآں، انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص خطے سے متعلق قراردادوں کی منظوری کے لیے اس خطے کے کونسل کے اراکین کی متفقہ حمایت یا دو تہائی اکثریت درکار ہونی چاہیے۔ہم خطے کی نمائندگی کرنے والے ممالک کو زیادہ منظوری اور نا منظوری کے حقوق دینے کے بھی مخالف نہیں ہیں۔” تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ ان حقوق کا دعویٰ انفرادی ممالک صرف اپنے قومی مفادات کے لیے نہیں کر سکتے۔اختتام میں، پاکستانی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لیے آئی جی این ہی وہ واحد فورم ہے جو سب سے زیادہ ممکنہ اتفاق رائے کو فروغ دے سکتا ہے۔