سیاسی رواداری اور اخلاقی تقاضے!!!

0
294
شبیر گُل

قوموں کی زندگی میں اتار چڑھا اور مشکلات آتی رہتی ہیں۔ جو قومیں ماضی سے سبق سیکھتی ہیں۔ وہ ایک دن اپنی کھوئی ئی منزل پالیتی ہیں۔ جو قومیں اخلاقی انخطاط کا شکار ہو جائیں وہاں تہذیب وتمدن اور رواداری کازوال پذیر ہونا لازمی امر ہے۔ اخلاق وکردار مسلمانوں کا بنیادی سرمایہ ہے اسے چھوڑ کر ہم زندگی کے آداب بھول گئے ہیں۔ آداب زندگی اور اخلاق زندگی جو ہمارا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ اسے دوسری اقوام اپنا کر ،ترقی پا چکی ہیں۔ مسلمان اسے چھوڑ کر زوال پذیر ہیں۔ ہمیںاپنے اخلاق و کردار پر غور کی ضرورت ہے۔ آداب زندگی سے یاد آیا آج برصغیر کی ایک بہت بڑی علمی شخصیت مولانا یوسف اصلاحی جنہوں نے(آداب زندگی ) اور زندگی گزارنے کے طریقوں پر مشتمل کئی لکھی جو گھر گھر میں موجود ہے۔ اللہ کے خضور پیش ہوگئے اللہ انکی مغفرت فرمائے ۔انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔ بہت عظیم شخصیت تہے۔ آج ایسے معتدل، نفیس اور باکردار علما بہت کم نظر آتے ہیں۔ آج ہم سیاسی اور مذہبی طور پر جمود کا شکار تو ہیں۔ لیکن بحیثیت قوم ہم اپنی منزل کا تعین نہیں کرپائے۔سیاسی کلچر نے آپس کے انتشار کی وجہ سے معاشرے کو ، لسانیت، فرقہ واریت اور سیاسی دھڑے بندیوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ہم اکثر اپنے ہی سر میں خاک اڑا رہے ہوتے ہیں۔ جس کا فائدہ پڑوس میں بیٹھا دشمن اٹھا رھا ہے۔ اندر کے دشمن نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ پیپلزپارٹی ہو یا پی ٹی آئی ۔ایم کیو ایم ہو یا مسلم لیگ سب اپنی سیاسی دوکاندای میں ملکی نظریات اور اخلاقی قدروں کا جنازہ اٹھائے نظر آتے ہیں۔ چند روز پہلے سقوط مشرقی پاکستان گزرا ہے ۔ دسمبر 16 ہر سال زخم ہرے کرکے گزر جاتا ہے۔ لیکن ہم نے اپنی نالائقیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ سیاسی مخالفت کو ہم اس حد تک لے جاتے ھیں کہ سندھ کو علیحدہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وزارت اعلی کے عہدے پر بیٹھا شخص صوبے کو علیحدہ کرنے کی باتیں کرتا ہو تو ایسے لوگ ملک کے وفادار نہیں ہوا کرتے۔اقتدار کی رشتہ کشی نے پہلے ہی ملک دولخت ہوچکاہے۔ سیاسی پارٹیوں کے اپنے مسلح ونگ موجود ہیں۔ جو آجکل کا سیاسی کلچر ہے۔ جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے سیاسی خریفوں کو زیر کرنے کے لئے اپنے کارکنان کو مسلح کرتی ہے۔ اقتدار سے باہر آنے کے بعد یہی مسلح گروپ برسراقتدار گروپ کے لئے چیلنج ثابت ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی ایجنسی را نے مکتبی باہنء کی تربیت کی اور انہیں اسلحہ فراہم کیا۔را نے نفسیاتی پراپیگنڈا کے زریعے پاک آرمی کو نشانہ بنایا۔کچھ ضمیر فروش صحافیوں کو استعمال کیا گیا۔جو جال بھارتی ایجنسی را نے مکتء باہنء کے ذریعے بچھایا تھا۔ آج وہی جال ٹی ٹی پی، بی ایل اے، سندھو دیش کے گماشتوں کے ذریعے بچھایا گیا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی را کے ایجنٹ پاکستان میں سرگرم ہیں۔ پاکستان کو بیرونی خطرات کے علاوہ اندرونی خطرات سے بھی واسطہ رھتا ہے۔ گزشتہ تیس سال ایم کیوایم کے کء کارکن دہشت گرد کارروائیاں میں را کی پے رول پر رہے۔ جس نے پاکستان کو اندرونی طور ہر کمزور کیا۔ پیپلز پارٹی ماضی میں دولخت کرنے پیش پیش تھی۔ ایکبار پھر پی پی لی کی لیڈ شپ ماضی کے طرز عمل کو دھرا رہی ہے۔ ہمارا المیہ رہا ہے کہ جونہی اقتدار سے آٹ ہوں یا خطرے میں دیکھیں تو مودی کی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں۔
پاک آرمی پر تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ عورتوں سے زیادتی کا جھوٹا پراپیگنڈا کیا گیا۔بھارتی صحافی شرمیلا بوس کا کہنا ہے کہ 1971 کی جنگ کی ریسرچ کے دوران بنگالی عوام نے جنگ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔باوجود کوشش کے ایک شہادت ایسی نہیں ملی کہ پاک آرمی نے عورتوں اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہو۔ ان تمام شواہد سے مجھے اندازہ ہوا کہ پاک آرمی کے خلاف انتہائی وسیع پیمانے پر عورتوں سے زیادتی کا پروپیگنڈہ کیا گیا تاکہ روامکے جذبات کو بھڑکایا جاسکے۔حالانکہ عوامی لیگ کے غنڈوں نے 1971 کے اوائل میں ہی مشرقی پاکستان کے مواصلاتی نظام پر قبضہ کر لیا تھا۔ مغربی پاکستان اور دنیا کے دوسرے حصوں میں جانے والے ٹیلی گراموں میں غیر بنگالی اور بہاریوں کے قتل عام کی خبروں کو روک دیا جاتا تھا۔عوامی لیگ کے غنڈوں کی بربرئیت کی خبریں مشرقی پاکستان سے بچ کر آنے والوں نے دی تہیں۔
یہی کام ایم کیو ایم کراچی میں انجام دے چکی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی لسانیت کا بیج بو کر صوبے میں نفرت پیدا کررہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ،ایم کیوایم ،اے این پی کی سیاست کا محور یہی رھا ہے۔ سیاسی بالادستی کے لئے ن لیگ پنجاب کارڈ ، پیپلز پارٹی سندھ کارڈ ۔ایم کیوایم مہاجر کارڈ ،اے این پی پختون کارڈ اور مولانافضل الرحمن مذہبی کارڈ کے طور پر مدارس کے طلبہ کو استعمال کرتی ہے۔ ہماری سیاسی عمائدین نے آج تک سیاسی اخلاقیات پر کوئی توجہ نہیں دی۔جس سے سیاسی کارکن آپس میں دشمنیاں پیدا نہ کرسکیں ۔ اس سیاسی گند کا فائدہ جرنیل اٹھاتے ہیں۔ جس سے نہ جمہوریت فروغ پاتی ے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں مضبوط آتی ہیں۔ اقربا پروری ہر سیاسی جماعت میں نظر آتی ہے۔ جس سے سیاسی کلچر مضبوط ہونے کی بجائے دن بدن کمزور ہو رھا ہے۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ، اے این پی اور اب پی ٹی آئی ، جمیعت علمائے اسلام ۔اقربا پروری اور موروثی سیاست کرتے آرہے ہیں۔
اگر باپ پارٹی سربراہ تھا تو اب بیٹا یا بھائی۔ سب سیاسی جماعتوں کا معاملہ ایک جیسا ہے۔ پی ٹی آئی کو خیبر پختون خواہ میں شکست بھی اسی لئے ہوئی ۔ ایک تو یہ ڈلیور نہیں کرسکے دوسرا تمام پارٹی لیڈروں نے اپنے بھائی ، بیٹے اور رشتہ داروں کو پارٹی عہدے اور ٹکٹ دے رکھے تھے۔ جس کا خمیازہ پی ٹی آئی شکست کی صورت میں اٹھا چکی ہے۔ ہم نے دین کا استعمال بوقت نکاح خطبہ اور بوقت نزع یسین پڑھنے کا کام ہے۔ اور باقی تمام معاملات زندگی میں یورپ اور مغرب کے دسترخوان کی چھوڑی ہوئی ہڈیوں پر گزارا کرتے ہیں۔ چونکہ ہم نے زندگی کے بنیادی معاملات میں اللہ اور رسول کے احکامات کو چھوڑ کر اس نظام کو قبول کیا ہے۔ جو کسی بھی ملک میں رائج نہیں۔ یورپ اور امریکہ نے اپنے نظام کو قدرے بہتر کر لیا ہے۔ جہاں انصاف ہے، لوگوں کی زندگی میں آسانیاں اور سہولتیں ہیں۔ لیکن ہم دن بدن پیچھے کیطرف جارہے ہیں۔ سیاسی معاملات میں اپنی تہذیب و تمدن ، اسلامی کلچر کو چھوڑ کر ایسے نظام کو اپنانے کی کوشش میں ھیں جو ہماری معاشرت سے میل نہیں کھاتا۔پوری دنیا میں ایسا کرپٹ نظام کہیں بھی رائج نہیں جو ہمارے ملک میں ہے۔ سیاسی نظام کرپٹ ، پولیس کا نظام کرپٹ ، عدلیہ اور مقننہ میں پیسے کا رواج۔ طاقتور کا راج ۔ غریب اور کمزور کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عوام میں عدم برداشت بڑھ چکاہے۔ نوجوان نسل کے لئے کوئی اصلاحی اور فلاحی منصوبہ نہیں ۔اپوزیشن اور حکومت کی کھنچا تانی میں ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ کرنسی ڈی ویلیو ہوتی جارہی ہے۔
خطے کے حالات تشویشناک ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکی سالمیت ، فیوچر جنریشن ، مہنگائی کے تدارک اور اداروں کے صیح فنکشن کے لئے ایک پیج پر سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ عوام میں جوفرسٹریشن بڑھ رہی ہے۔ اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ گزشتہ چند سالوں میں سیاسی عدم برداشت نے قوم کو تقسیم کیا ہے۔ قوم کو مسلکی ، لسانی اور سیاسی تفریق سے باہر لانا ہوگا۔
دیار غیر میں بسنے والی اوورسیز پاکستانی کمئونٹی بھی ، بیرون ملک رہ کر اسی بوسیدہ نظام کو کندھا فراہم کرتی ہے۔ چند بدنام زمانہ صحافی پاکستان کے خلاف بھارتی اور مغربی اخبارات میں مضامین لکھتے ہیں۔ آئین پاکستان میں انکے خلاف کوئی ایسا قانون نہیں جو انکو گردن سے دبوچ سکے۔ اسکی بنیادی وجہ اداروں کا اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام نہ کرنا ہے۔ کوئی ایسا بااختیار ادارہ نہیں جو ان بے لگام جرنیلوں ۔کرپٹ ججوں ،بدمعاش سیاسی لیڈروں اور بے ضمیرصحافیوں پر ہاتھ ڈال سکے۔ اگریہ ذمہ دار لوگ قابل احتساب ہوں تو افسر شاہی کرپشن کی جرآت نہیں کر سکتی۔اس لعنت کے اثرات نیچے تک سرایت کر چکے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور خلیج میں پاکستانی کمیونٹی کی سیاسی، مذہبی اور لسانی تقسیم نے ہمیںکبھی یکجا ہونے کا موقع نہیں دیا۔کیونکہ ہم پارٹی پالیٹکس ، مذہبی تفریق اور نسلی تعصب سے باہر نہئں نکل سکے ۔ جس کا نقصان ہمیںاٹھانا پڑتا ہے۔ ہمیںبیرون ملک بحیثت قوم اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ناکہ ڈیڑھ انچ کی علیحدہ مسجد بناکر قد اونچا کرنے کی کوشش کریں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here